لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے نئے برس میں داخل ہو کر زراپیچھے پلٹ کر دیکھنے پراپنے پاکستان اور آس پاس بہت کچھ ملتا ہے لیکن میں یہ سب چھوڑ چھاڑ کر آپکو شمالی یورپ کے پینتالیس لاکھ مربع کلومیٹر پرپھیلے ہوئے ملک سویڈن لئے چلتا ہوں جہاںایک کروڑ تیس لاکھ آسودہ حال انسان عزت اور وقار کے ساتھ سانس لیتے ہیں ،دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں اگر کہیں فلاحی ریاست کی مثال دی جائے تو پروجیکٹر پر سویڈن کا نام پہلے تین ممالک میں ہوتا ہے،شدیدسرد موسم کے اس ملک میں درجہ ء حرارت ایسے نیچے گرتا ہے کہ پورے موسم سرما اٹھنے کا نام نہیں لیتااوپر سے سورج بھی غائب ہی رہتا ہے برف باری شدید ہوتی ہے اوربرف سڑک پر ایسے بچھ جاتی ہے کہ تارکول کا ایک انچ بھی دکھائی نہ دے لیکن اسکے باوجود سویڈن میں زندگی رواں دواں رہتی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں موسم ہی سرد ہوتا ہے ریاست کا برتاؤ نہیں ،سویڈن اپنے شہریوں کا اولاد کی طرح سے خیال رکھتا ہے جیسے کوئی شفیق باپ رات کو اٹھ اٹھ کر بچے پر کمبل درست کرے اسکے پیروں پر رضائی ڈالے ،افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے چلائی جانے والی وکلاء تحریک میں اعتزاز احسن کی اک نظم ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ خاصی مشہور ہوئی تھی ان کا وہ لب لہجہ تو گردش ایام اور سیاست کی نذر ہوگیا اوروہ نظم پر لگا کر سویڈن پہنچ گئی ۔ ہمارے ایک دوست سہیل بھائی اسی شفیق ریاست کے شہری ہیں ،پہلے کراچی میںتھے وہاں سے ہجرت کی اور سویڈن پہنچ گئے اور ایسے پہنچے کہ وہیں کہ ہو کر رہے وہ گاہے بگاہے رابطہ کرتے رہتے ہیں اور دل جلاتے رہتے ہیں ،عجیب عجیب باتیں بتاتے ہیں جب ہم نوازشریف اور زرداری کے ’’یثرب‘‘ میں تھے تب حیرت سے سنتے تھے اور آج جب کپتان کے ’’مدینہ‘‘ میں ہیں تو حسرت سے سنتے ہیں،ایک بار سہیل صاحب نے سویڈن سے آنے والے اپنے کسی دوست کے ہاتھوں میرے بچوں کے لئے چاکلیٹس اور کھلونے بھیجے میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور چاہا کہ ان کے لئے بھی کوئی تحفہ بھیجا جائے خیال تھا کہ وہ ٹھنڈے ملک میں رہتے ہیں تو چمڑے کی جیکٹ بہتر رہے گی ،کراچی پریس کلب کے قریب زیب النساء اسٹریٹ پر چمڑے کی جیکٹوں اور دستانوں کی بہت سی دکانیں ہیں جہاں اکثر غیر ملکی بھی دکھائی دیتے ہیں ہم نے سہیل بھائی سے ان کا قد کاٹھ پوچھا تو وہ بھانپ گئے اور کہنے لگے آپ کسی تکلف میں نہ پڑیں ،یہاں سب کچھ ملتا ہے ہم نے عرض کی کہ کراچی بھی ایسا لق و دق صحرا نہیں کہ یہاں چاکلیٹس نہ ملتی ہوں وہ ہنس پڑے ہم نے کہا سہیل بھائی یہاں زیب النساء اسٹریٹ پر چمڑے کی جیکٹیں بہت اچھی ملتی ہیں اگرچہ حکومتوں نے زیادہ چمڑا تو ہمارا اتارا ہے لیکن یہ گائے کی ان کھالوں کی ہوتی ہیں جنہیں عید کے دنوں میں چھین جھپٹ کر کورنگی کی چمڑا فیکڑیوں میں پہنچایاجاتا ہے ان میں سے کوئی ایک کھال آپ بھی پہن لیجئے گاہماری اس بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسے اور کہنے لگے ’’بات یہ ہے بھائی کہ یہاں سردی اس شدت کی پڑتی ہے کہ یہ جیکٹیں کام نہیں کرتیں ہمیں یہاں مخصوص قسم کی جیکٹیں پہننی پڑتی ہیں یہ خاص واٹر پروف کپڑے کی دو تہوں والی جیکٹیں ہوتی ہیں جن میں چوزے کے پر بھرے ہوتے ہیں ان سے کچھ گزارہ ہوجاتا ہے۔ اس بات پر ہم نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھاکہ بھائی اس سرد جہنم میں رہتے کیسے ہو،نہانا دھونا،کپڑے برتن دھونا یہ سب کیسے ہوتا ہوگا،وہ پھر ہنس پڑے اور ہماری حیرت سے محظوظ ہوتے ہوئے گویا ہوئے’’آپ یقین کریں گے کہ سردی کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو گھر کے نلکوں میں گرم پانی سے کبھی محروم نہیںرہے،یہ یہاں کی بلدیہ کی ذمہ داری ہے ڈیوٹی ہے اور یہاں ڈیوٹی ٹوٹی پھوٹی نہیں پوری ہوتی ہے،انہوں نے یہاں سسٹم ایسا بنا رکھا ہے کہ عام آدمی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی ،آپ یقین کریں گے کہ ایک بار یہاں برف کا طوفان آیا اور بجلی منقطع ہوگئی ،یہاں ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے لیکن قدرت سے کون لڑسکتا ہے بجلی کے جاتے ہی متعلقہ ادارے حرکت میں آگئے کام ہونے لگااس اثناء میں یہاں کی بلدیہ نے پہلے تو ریڈیو پر معذرت کی کہ برف کے طوفان کی وجہ سے بجلی کے نظام میں خلل آیا اور شہریوں کو زحمت اٹھانا پڑ رہی ہے پھر انہوں نے کہا کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو جو بھی نقصان ہوا ہے اسکا ازالہ کیا جائے گا آپ کی جو شے خراب ہوئی ہے اسکی رسید لے کر کمیونٹی سنٹر چلے جائیں اور رسید دے کر اپنی رقم لے لیں‘‘۔ ان کی یہ بات نئے اور پرانے دونوں پاکستانوں میں ناقابل یقین تھی ہم نے بے ساختہ کہا ’’سہیل بھائی ! یہ کیسے ممکن ہے ،کوئی پوچھ تاچھ تو ہوتی ہوگی ،کوئی بھی رسید لے کر کیسے کلیم کرسکتاہے اگر کوئی کہے کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے دودھ دہی خراب ہو گیا ہے تو وہ اسکی رسید کہاں سے لائے گا‘‘ہماری اس بات پر وہ گویاہوئے۔۔ ’’یہاں اگر آپ ایک بنیان بھی خریدیں تو اسکی رسید ملتی ہے ،چار انڈے بھی لینے جائیں تو دکاندار رسید ہاتھ پر رکھتا ہے ،اک اک چیز کا ریکارڈ رہتا ہے کھلا کھاتا نہیں ہے اس لئے ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہونے کے باوجود ٹیکس چوری کی شرح بہت ہی کم ہے پھر عام آدمی دیکھتا ہے کہ اسکا اسکے بچوں کا علاج تعلیم بالکل مفت ہے۔ روزگار کے اچھے مواقع ہیں اسکے دروازے تک سڑک بجلی گیس ٹیلی فون کی تاریں پہنچتی ہیں اسے بہترین زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے تو وہ ٹیکس دینے سے نہیں ہچکچاتا اور جو ڈیڑھ ہشیار بننے کی کوشش کرتے ہیں یہاں کا نظام انہیں چھان کر ایک طرف کر دیتا ہے، ان سے وصولویوں کے ساتھ ساتھ خوفناک جرمانہ بھی لیا جاتا ہے اور اس معاملے میں کسی قسم کی رعائت نہیں برتی جاتی خواہ وہ وزیر اعظم ہو یا وزیر اعظم کا باپ۔ یہ مختلف نوعیت کے واقعات ہیں لیکن دونوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کی بلاامتیاز عملداری وینٹی لیٹر پر ہے قانون بااثرافراد کی ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے یہی ’’رعب دبدبہ‘‘ ہماری ٹیکس مشینری کی چال میں رخنہ ڈالتا ہے ،ٹیکس وصولی میں جو ڈنڈی ماری جاتی ہے وہی سوٹی عوامی منصوبوں کے معیار میں بھی ماری جاتی ہے اور بالآخر یہ مار عوام کو ہی پڑتی ہے ہم میں اورسویڈن،ناروے ، ڈنمارک ،کینیڈا میں یہی فرق ہے وہاں ایک ملک میں ایک قانون ہے اور ہمارے یہاںپاکستان نیا ہو یا پرانا ہر ایک کے لئے قانون مختلف ہے جب تک ہم یہ فرق ختم نہیں کریں گے پاکستان پاکستان ہی رہے گا مدینہ بنے گا نہ سویڈن۔