29ستمبر کو ، وزیراعظم جناب عمران خان ، نہ صِرف کشمیریوں بلکہ عالمِ اسلام کے سفیر کی حیثیت سے ، نعرۂ رسالت ؐ اور اِنسانی حقوق کی سربلندی کے سلسلے میں کامیابیاں سمیٹتے ہُوئے جب وطن واپس پہنچے تو ، اُن کا اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر (قومی اخبارات کی سُرخیوں کے مطابق ) ۔ ’’پُر تپاک ، فقید اُلمِثال ، شاندار، اور یادگار استقبال کِیا گیا‘‘ ۔معزز قارئین!۔ عربی ؔ زبان کے لفظ استقبال ؔ کے تو دوسرے معنی بھی ہیں ، جو ’’شاعرِ پاکستان‘‘ جناب حفیظ جالندھری نے ، پاکستان کے قومی ترانہ میں استعمال کئے ہیں ۔ لفظ استقبالؔ کے معنی ہیں ۔’’ مستقبل ، آئندہ آنے والا زمانہ‘‘ اور انگریزی میں "Future"(Futurity)۔ قومی ترانے کا تیسرا اور آخری بند یوں ہے … پرچم سِتارہ و ہلال! رہبر ترقی و کمال! ترجمان ِ ماضی شان حال! جانِ استقبال! سایۂ خُدائے ذوالجلال! معزز قارئین!۔ میرے علم کے مطابق جنابِ حفیظ جالندھری نے قومی ترانہ لکھتے وقت ’’مصّورِ پاکستان ‘‘ علاّمہ محمد اقبالؒ سے ضرور راہنمائی حاصل کی ہوگی؟ ۔ اپنی ایک فارسی نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے ، ہر ’’بالغ نظر ،حقیقت بِین اور تجربہ کارمسلمان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … مشِکن از خواہی حیاتِ لازوال! رِشتہ ٔ ماضی استقبال و حال! یعنی۔ ’’ اگر تو لازوال زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو ماضی ؔ کا رشتہ۔ حال و مستقبل سے قطع نہ کر‘‘۔ ’’پاکستان کا ماضی اور حال !‘‘ معزز قارئین!۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا۔ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ خالقِ حقیقی سے جا مِلے اور 16 اکتوبر 1951ء کوراولپنڈی کے کمپنی باغ ( اب لیاقت باغ) میںقائداعظمؒ کے دست راست تحریک پاکستان کے نامور قائد اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم ’’ قائدِ ملّت ‘‘ لیاقت علی خان کو ڈیوٹی پر موجود راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نجف ؔخان نے پولیس اہلکاروں کو حکم دِیا کہ ’’گولی چلانے والے ( قاتل) کو فوراً مار ڈالو!‘‘ ۔ پھر صید ؔ اکبرہلاک ہوگیا ، پھر پتہ نہیں چل سکا کہ ’’ قائدِ ملّت کی شہادت میں سازشی کردار کس کِس کا تھا؟۔ ’’قائد ِ ملّت ؒ کا مُکّا!‘‘ معزز قارئین!۔ یکم اکتوبر کو ’’قائد ِ ملّت ‘‘ لیاقت علی خان ؒ کا 125 واں یوم پیدائش (سالگرہ) بھی تھی لیکن، ہُوا یو ں کہ ’’ جولائی 1951ء میں جب بھارت نے سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کردِی تھیں توپاکستانی عوام کا "Morale" بلند کرنے کے لئے ’ قائد ِ ملّتؒ ‘‘ نے 27 جولائی 1951ء کو اہلِ پاکستان سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ برادرانِ ملّت !۔ یہ پانچ انگلیاں جب تک علیحدہ ہوں اُس کی قوت کم ہوتی ہے لیکن جب یہ مل کر مُکاّ بن جائے تو مکاّر دشمنوں کا مُنہ توڑ سکتا ہے! ‘‘۔ ’’ قائد ِ ملّتؒ ‘‘ کا تاریخی مُکاّ اُن کی بہادری کی علامت بن گیا تھا ۔ یہ تھا / ہے ہمارا ماضی ؟لیکن، ہمارے ماضی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ’’ ہمارے جرنیلوں اور (جمہوریت کے علمبردار ) سیاستدانوں نے پاکستان کو دولخت کرا دِیا اور پھر بھلا ، بھارت سے دوستی اور تجارت کے خواہش مند ، پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم بھلا بھارت کو مُکاّ دِکھانے کی قوت کہاں رکھتے تھے / ہیں ؟۔اپنے دورۂ امریکہ سے پہلے اور بعد میں وزیراعظم عمران خان نے ’’بنیا قوم ‘‘ کے سپوت بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کشمیریوں کی آزادی کے لئے اہلِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کِیا اور امریکہ میں ’’ نعرۂ رسالت ؐ ‘‘ بلند کرتے ہُوئے بھی کشمیریوں کے اِنسانی حقوق کے لئے ’’ جہاد‘‘ کا اعلان ۔کیا اہلِ پاکستان یہ سمجھ لیں کہ ’’ قائد ِ ملّت ؒ کی طرح وزیراعظم عمران خان بھی بھارت کو ’’ مُکاّ‘‘ دِکھا رہے ہیں؟‘‘۔ ’’ امریکی سازش؟ ‘‘ معزز قارئین!۔مَیں 1960 ء سے ’’مسلک ِ صحافت ‘‘ سے وابستہ ہُوں لیکن مَیں نے جب 17 جولائی 2019ء کو جناب ضیاء شاہد کے روزنامہ ’’ خبریں‘‘ میں صفحہ اوّل پر چار کالموں میں ’’ جلّی سُرخیوں‘‘ میں ، دفاعی تجزیہ کار ، بریگیڈئیر (ر) حامد سعید اختر صاحب کے حوالے سے ایک رپورٹ پڑھی جس کا خلاصہ یہ تھا / ہے کہ ’’-1 وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل میں امریکہ کے ملوث ہونے بارے معلومات مجھے واٹس اپ کے ذریعے پہنچی ہیں : بریگیڈئیر (ر) حامد سعید اختر۔-2 امریکی ادارے 25,20 سال بعد خفیہ رپورٹس سامنے لاتے ہیں ، جو اب منظر عام پر آئی ہیں ، جس میں اعتراف کِیا گیا ہے کہ ’’ قائد ِ ملّت ؒ کو امریکہ نے قتل کرایا تھا : دفاعی تجزیہ کار۔-3 لیاقت علی خان کو امریکہ نے قتل کرایا، انکشافات سامنے آگئے۔-4 امریکہ کے دورے کے دَوران ملاقات میں اُن دِنوں "Harry S. Truman"صدر امریکہ تھے ۔ اُنہوں نے لیاقت علی خان سے کہا کہ ایران پر دبائو ڈالیں کہ وہ تیل کے ٹھیکے امریکی فرموں کو دے۔-5 لیاقت علی خان نے یہ کہہ کر امریکی دبائو سرے سے رد کردِیا کہ ہمارے ایران سے اچھے تعلقات ضرور مگر پڑوسی ملک پر بلا وجہ دبائو کیوں ڈالیں۔-6 پاکستانی وزیراعظم کے صاف انکار کے بعد امریکی صدر ٹرومین نے انہیں دھمکی دِی تھی کہ ’’ آپ کو ہماری بات نہ ماننے کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے ‘‘۔-7 پاکستانی وزیراعظم نے نہ صِرف امریکی دبائو مسترد کردِیا بلکہ پاکستان کی حدود میں موجود تمام امریکی طیاروں کو فوری نکل جانے کا حکم دِیا۔-8 امریکی صدر نے اِس اقدام کو سپر پاور کی بے عزتی سمجھا اور لیاقت علی خان کو مروانے کے لئے قاتل تلاش کرنے لگا اور افغانستان کا رُخ کِیا اور صید اکبر نامی افغانی کو چنا۔-9 اِس کے ساتھ ساتھ دو اور بندے منتخب کئے کہ ’’ جب ٹارگٹ پورا ہو جائے تو صید اکبر کو بھی موقع پر ختم کردیں تاکہ ثبوت بھی ختم ہو جائیں: رپورٹ میں انکشاف‘‘۔ ’’ریاست ِ مدینہ جدید ‘‘ کئی سابق حکمرانوں کی طرح وزیراعظم عمران خان نے بھی پاکستان کو ’’ ریاست ِ مدینہ جدید‘‘ بنانے کا اعلان کِیاہے ۔ مَیں نے پہلے کی طرح اپنے کالموں میں لکھا کہ ’’ ریاست ِ مدینہ‘‘ میں تو پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی خوشنودی کے لئے انصارِ مدینہ نے مہاجرین مکّہ سے ’’مؤاخات ‘‘(بھائی چارا)قائم کر کے اُنہیں اپنی آدھی جائیداد اور دولت منتقل کردِی تھی؟۔ کیا ’’ ریاستِ مدینہ جدید‘‘ میں بھی ایسا ہوسکتا ہے ؟۔ ’’جنگ تبوک سے روشنی ؟‘‘ مَیں نے 9 اگست 2019ء کو اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ 9 ہجری (نومبر 630ء ) کے غزوۂ تبوک ؔ سے روشنی حاصل کی جائے ؟ کہ ’’ جب پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے جنگی اخراجات کے لئے خُدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دِی تو، اکثر صحابہ ؓنے بڑی ، بڑی رقوم پیش کردِی تھیں۔ حضرت عُمر ؓ اپنے سارے مال و اسباب میں سے نصف لے آئے تھے اور حضرت صدیق اکبر ؓ کے پاس جو کچھ تھا وہ سارے کا سارا پیش کردِیا تھا ‘‘۔ کیا ہی اچھا ہو کہ’’ حکومت میں شامل ارکان اور اپوزیشن کے قائدین بھارت کی طرف سے پاکستان پر مسلط کی گئی جنگ میں اپنا زیادہ سے زیادہ مال و متاع سرکاری خزانے میں جمع کرادیں (اور خاص طور پر ) وہ لوگ جن پر منی لانڈرنگ کے مقدمات چل رہے ہیں ، اُنہیں بھی توبہ کا موقع مل رہا ہے؟ ‘‘۔ ’’ربّ دِیاں رکھّاں!‘‘ مجھے نہیں معلوم کہ ’’ وزیراعظم عمران خان کے ’’ نعرہ ٔ رسالت ؐ ‘‘ اور بھارت کے خلاف اعلانِ جہاد کے بعد کیا ہوگا؟‘‘۔ مَیں تو اپنے وزیراعظم کے لئے یہی دُعا کرسکتا ہُوں کہ ’’ عمران خان تینوں ربّ دِیاں رکھّاں!‘‘ ۔معزز قارئین!۔ مَیں نے دو بار ’’عمران خان ! تینوں ربّ دِیاں رکھّاں !‘‘کے عنوان سے کالم لکھا ۔ ایک بار 11 مئی 2013ء کو جب انتخابات سے چار دِن پہلے عمران خان لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ گاہ کے سٹیج پر چڑھتے ہُوئے 15 فٹ کی بلندی سے گر کر سنبھل گئے تھے اور دوسری بار 8اگست 2018ء کو جب وزیراعظم کی حیثیت سے اُنہوں نے 6 اگست 2018ء کو بنی گالہ سے ہوٹل تک اپنے پروٹوکول کے لئے سرکاری گاڑیوں کے قافلے کی سکیورٹی پر برہم ہو کر اُنہوں نے "Rangers" اور "F.C" کی اضافی گاڑیاں واپس بھجوا دِی تھیں؟۔