جھوٹ تیز دوڑتا مگر منزل پہ سچائی ہی پہنچتی ہے۔ سیاستدان ایک پرچی کے لئے کئی دنوں سے عوام کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں۔مسلسل جھوٹ۔جدید ٹیکنالوجی کے دور میں یہ پر فریب نعرے زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔عوام 75برسوں سے یہ دعوے اور وعدے سن رہے ہیں۔ سیاستدان الیکشن جیتنے کے بعد وہ علاقہ ہی چھوڑدیتے ہیں۔نوجوان نسل ایسے بہروپیوں کے جال میں نہیں پھنستی۔ عظیم دانشور نے کہا تھا:جب انسان اپنی وقعت کھو دے تو اس کے لیے بہترین پناہ گاہ خاموشی ہے۔ وضاحت کبھی سچا ثابت نہیں کر سکتی، ندامت کبھی نعم البدل نہیں ہو سکتی اور الفاظ کبھی بھی انسان کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس نہیں دلا سکتے۔ مگر خاموشی اسے مزید تذلیل سے بچا سکتی ہے۔ آج وہ لمحہ آ چکا،جب سچ اور جھوٹ میں فرق واضح ہو گا۔ ایک طرف درجن سیاسی جماعتیں،ان کی قیادت،سرکاری مشینری،ایس ایچ او سے لیکر آئی جی تک طاقتور فورس۔دوسری جانب ایک جماعت،ایک لیڈر۔جذبہ حریت سے سرشار عوام۔عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کے نتائج انتہائی خطر ناک نکلتے ہیں۔ماضی میں اسی بنا کر ملک دولخت ہوا۔ ملک توڑنے والے سیاستدانوں کی آل و اولاد آج بھی اقتدار سے ماضی کی چرح چمٹی ہوئی ۔ ضمنی الیکشن میں 20حلقوں کے عوام اپنے احوال و کوائف کا جائزہ لے کر منزل کی جانب بڑھیں گے۔ وہ منزل جو ان کے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔ جہاں فلاح‘ خیر اور بھلائی کے چشمے پھوٹیں گے۔عوامی جذبے پرکرامن کاتبین کی رپورٹس کے بعد مرکز سے لے کر صوبے تک کی سرکاری مشینری کو اہداف سونپے گئے۔وفاق اور صوبائی حکومت کے درجن بھر وزراء عہدوں سے مستعفٰی ہوکر انتخابی محاذ سنبھال چکے۔ عوام کو جھوٹی تسلیاں دی جا رہیں۔نوکریوں کے لالچ ،ترقیاتی فنڈز کی نوید‘ کچھ کو نقد انعام۔زمینی حقائق سب کے سامنے۔ حکومتی شہواروں کے تیروں کا رخ عمران خاں کی شخصیت۔ فرد واحد نے درجن بھر سیاسی جماعتوں کو تگنی کا ناچ نچایا، نادیدہ قوتیں بھی اس کے خلاف صف آرائ۔وہ بہادر اور جری تنے تنہا سب کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا۔ اگر عوام اب بھی چپ چاپ ملکی تباہی کا تماشا دیکھتے رہے تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ 22 کروڑ عوام اپنے اندر بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں مگر غفلت کی چادر اوڑھے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔حقیقتوںکو دیکھ کر آنکھیں موند لینے یا انہیں نظرانداز کرنے والی قومیں اکثر صراط مستقیم سے بھٹک جاتی ہیں۔حقائق فراموش کرنے والے حکمران ہمیشہ نمونہ عبرت بن جاتے ہیں۔ حقیرسے مچھر کے ہاتھوں انجام کو پہنچنے والے نمرود اور موج نیل میں غرق ہو جانے والے فرعون کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ صدا بادشاہی صرف ایک ہی ہستی کو زیبا ہے۔ سروری صرف اسی ذات کے لیے مخصوص۔ کوئی اس کی ہمسری کا دعویٰ کرے تو اسے نقش عبرت بنا کر تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے فرعونوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ سحر تب پھوٹتی ہے جب تاریکی گہری ہو جائے ۔قومیں مصائب سے گزرنے کے بعد ہی زندگی پاتی ہیں ۔رونے دھونے سے نہیں ،حکمت اور جہد مسلسل سے کامیابی ملتی ہے۔مایوسی کفر ہے۔آج اس قوم کا امتحان ہے، وہ کیسے حکمران چاہتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی بھی ساکھ کا سوال ہے۔ بیس حلقوں میں دھاندلی اور دھنگے فساد کے بغیر الیکشن کا انعقاد ہوجاتا ہے، تو اس کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا ،ورنہ الزام درالزام۔ پنجاب اسمبلی کے 20ایم پی ایز کے دلوں میں اچانک کم نصیبی کی ایک بے مہر گھڑی اتری،ان کے ووٹرز کو خبر ملی کہ عمران خاں کے آنگن میں چہچہانے والا خوش آواز پرندہ وفا کے سارے رشتے توڑ مسلم لیگ کی ہریالی شاخ (ن) لیگ پہ جا بیٹھا ہے۔اس دن کے بعد وہ 20 افراد گھروں سے نکل سکے نہ ہی کسی آدمی کی خوشی غمی میں شریک ہو ئے ۔یہاں تک سبھی نے نماز عید بھی گھر کے بینکر نما کمرے میں ادا کی ۔وہ اب دہائی دے رہے ہیں، کوئی دروازہ ان پہ کھلتا ہی نہیں۔ پنجاب کے عوام ڈھٹائی کی حدوں کو چھوتی بے وفائی کو کبھی معاف نہیں کرتے ۔ساڑھے تین سال وزارتوں کے مزے لوٹنے والوں کے ضمیر اچانک کیسے جاگ اٹھے؟یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے۔تقریر، تشہیر،خریداری کرنے میں ید طولا رکھنے والے کچھ ہی لمحوں بعد کوچہ سیاست کا خس وخاشاک بن جائیں گے۔ بنو عباس میں عبدالملک عقل و دانش‘ تدبیر و سیاست‘ شجاعت اور علم و فضل کے جملہ اوصاف کا پیکر تھا۔ اس کے تدبر و سیاسی شعور کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ تخت اقتدار پر متمکن ہوا، تب اس کے پاس فقط مصر و شام کے صوبے تھے۔ علاوہ ازیں وہ متعدد مشکلات میں گھرا ہوا تھا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر طوفان حوادث کامقابلہ کیا اور رفتہ رفتہ اپنے تمام حریفوں کو مات دے کر کل دنیائے اسلام کا واحد حکمران بن گیا۔علم و فضل کے اعتبار سے عبدالملک اپنے عہد کے اکابر علماء میں شمار ہوتا تھا۔ اگر وہ حکومت کی آزمائشوں میں نہ پڑ گیا ہوتا تو مسند علم مدینہ کی زینت ہوتا۔ اس کا شمار مدینے کے ممتاز فقہاء میں تھا۔ اس کے عہد کے اکابر علماء و آئمہ اس کے علمی کمالات کے معترف تھے۔تخت اقتدار پر براجمانی سے پہلے وہ بڑا متقی و پرہیز گار تھا۔ رات دن عبادت و ریاضت اور تلاوت قرآن سے کام رکھتا تھا لیکن خلافت کی ذمہ داریوں کے بعد وہ یہ طرز زندگی قائم نہ رکھ سکا لیکن مذہب کی خدمت کا جذبہ اس میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ اگر انسان حوادث زمانہ کی میں گھر نے کے باجود عوام کی خدمت کرنا چاہے تو بیسوں مثالیں موجود ہیں ۔مگر ہمارے دور کا طریقہ مختلف ۔یہاں اپنے گناہوں اور نااہلیوں کا ملبہ بھی دوسروں پر ڈالا جاتا ہے۔موجودہ حکمران حالات کر سنبھال نہیں پا رہے،معیشت کنٹرول سے باہر ہے۔مگر اس کا ملبہ دوسروں پر ڈالا جا رہا ہے۔عوام ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اس پر پہرہ دیں تاکہ ان کا ووٹ چوری ہونے سے بچ سکے۔ورنہ ماضی کی طرح ووٹ کہیں ڈالیں گے تو نکلے گا کہیں اور سے۔