انسان مر جاتے ہیں مگر آوازیں نہیں مرتیں۔ انسان دفن ہوجاتے ہیں مگر صدائیں دفن نہیں ہوتیں۔ انسان جل جاتے ہیں مگر سر سلامت رہتے ہیں۔ یہ سچائی ہم پر اس وقت آشکار ہوتی ہے جب ماضی کے جھروکوں سے کوئی ساحر آواز ہماری سماعت سے ٹکراتی ہے۔ وہ آواز ہمیں بہت دور لے جاتی ہے۔ عمر کے اس حصے میں جس پر مسلسل فراموشی کی بارش برستی رہتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہوا۔ دس اکتوبر کے دن میڈیا کی معرفت اس فنکار کی یاد آئی جس نے راجستھان میں جنم لیا تھا۔ سکھ خاندان میں پیدا ہونے والے اس بچے نے سروں کے ساتھ نہ صرف ایک طویل مگر بیحد مختلف سفر کیا۔ اس کے حصے میںجو شہرت آئی وہ بہت سارے غزل گو فنکاروں کو نہیں مل پائی۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ وہ موسیقی کے علم اور ہنر میں ان سب سے بڑا ماہر تھا۔ ان غزل گو فنکاروں میں ایسے استاد گائیک بھی تھے جن کے قدموں میں بیٹھ کر وہ فنکار عزت افزائی محسوس کرتا تھا۔ مگر قدرت نے اس کو جس گائیکی کے نئے انداز کا تحفہ دیا وہ اس کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے کا باعث بنا۔ آپ سب سمجھ گئے ہونگے کہ میں کس فنکار کی بات کر رہا ہوں؟ جی ہاں! میں جگجیت سنگھ کی بات کر رہا ہوں۔ اس جگجیت سنگھ کی، جس کی آواز ہماری جوانی کی آواز ہے۔ ہم جب بھی اس کی غزل سنتے ہیں تب سفید بالوں کے دور سے پیچھے لوٹ جاتے ہیں۔ اس کی آواز کی انگلی پکڑ کر ہم اس دور کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جس دور میں ہر انسان محبت کرتا ہے۔ جس دور میں ہر انسان کسی کی یاد میں اداس ہوتا ہے۔ وہ دور سب پر آتا ہے۔ وہ دور ہم پر بھی آیا۔ وہ گزشتہ صدی کے آٹھویں عشرے کا ابتدائی دور تھا۔ اس دور میں میڈیا کی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ ہم اپنا من سوشل میڈیا سے بہلاتے اور رات دیر تک موبائل فون پر باتیں کرتے سوجاتے۔ اس دور میں وی سی آر کی ایجاد عقل کو چرخ کردینے والی ایجاد تھی۔ اس دور میں جب ٹیپ ریکارڈ پر ہم جگجیت اور چترا کے گیت اور غزلیں سنتے تھے تب خوابوں کی دنیا میں پہنچ جاتے تھے۔ وہ گیت اور غزلیں بہت ماڈرن اور بیحد مختلف تھیں۔ جگجیت سنگھ کی آواز اس دور کی رومانوی آواز تھی۔ ہم اس دور میں ان گیتوں کو اپنے دل کی دھڑکن سمجھتے تھے۔ جب رات کو دیر گئے ساری آوازیں سوجاتی تھیں تب ہاسٹل کے کمرے میں ایک مدھر آواز گونجتی تھی: ’’یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی‘‘ اس گیت میں صرف نوجوانی کے دنوں میں ہونے والی محبت کا تذکرہ نہ تھا بلکہ اس میں اس بوڑھی نانی کا ذکر بھی تھا جس کے چہرے پر جھریاں تھیں اور جس کی کہانی اس کی زندگی کی طرح بہت لمبی تھی۔ جگجیت اور چترا جب مل کر گاتے تھے تب ایسا لگتا تھا جیسے دو رومانوی روحیں ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کر رہی ہوں۔ ان دونوں نے مل کر بہت گیت گائے۔ ان گیتوں میں وہ پنجابی گیت بھی تھا جس گیت میں محبت روتی نہیں بلکہ ہنستی اور مسکراتی تھی۔ وہ گیت تھا: ’’باغے وچ آیا کرو اساں جدی سوجائیے تسیں مکھیاں اڑایا کرو‘‘ اس کا جواب دیتے ہوئے مرد کہتا ہے: ’’تسیں روز نہایا کرو مکھیاں توں ڈردے او گڑ تھوڑا کھایا کرو‘‘ اس ہنسی مذاق کے علاوہ اور بھی گیت اور غزلیں تھے۔ اور بھی صدائیں تھیں۔ اور بھی آوازیں تھیں۔ ایسی آوازیں جو آج بھی دل کی سونی حویلی میں گونجتی رہتی ہیں۔ ان آوازوں میںا یک آواز تھی: ’’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو‘‘ ان آوازوں میں ایک صدا یہ بھی تھی: ’’سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ‘‘ مگر جب ’’غیرت عشق‘‘ کی بات آتی تھی تب جگجیت کی یہ غزل ہمارے دل کی آواز بن جاتی تھی: ’’عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا‘‘ ہم محبت کی بات کر رہے ہیں۔ ہم جگجیت سنگھ کی بات کر رہے ہیں۔ ہم اس جگجیت سنگھ کی بات کر رہے ہیں جس جگجیت سنگھ نے اپنی فن کی معرفت مرزا غالب کی شاعری کو نئی نسل سے جوڑ دیا۔ جب تک گلزار کی ڈرامہ سیریل ’’مرزا غالب‘‘ نہیں بنی تھی تب تک مرزا غالب ہماری نسل نو کے لیے ایک مشکل شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے مگر جگجیت نے اپنی آواز میں مرزا غالب کی غزلوں کو گاکر اسے اتنا سہل بنا دیا کہ ہماری نئی نسل مرزا غالب سے محبت کرنے لگی۔ جب انہوں نے مرزا غالب کی یہ غزل گنگنائی: ’’آہ کو چاہئیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ تب خود ہمیں بھی یہ احساس ہوا کہ ہم غالب کی سخن کو کسی اور انداز میں سن رہے ہیں۔ مرزا غالب کی شاعری کو جگجیت سنگھ نے ایک انداز سے گایا اور اس دور کے نوجوانوں کا دل چرالیا۔ جب سب نے یہ سنا: ’’بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘‘ تب مرزا غالب کی عظمت اس نسل پر بھی آشکار ہوگئی جس نسل کے لیے غالب بڑے مشکل شاعر تھے۔ یہ کمال صرف موسیقی میں ہوتا ہے وہ مشکل شاعری کو آسان بنا دیتی ہے۔ جگجیت سنگھ نے اس کامیابی کو حاصل کرلیا۔ جگجیت سنگھ کے فن کی کامیابی صرف یہاں برصغیر تک محدود نہیں رہی۔ اس کی آواز سات سمندر پار بسنے والے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بھی بنی۔ جگجیت سنگھ کے بہت بڑے اور یادگار کنسرٹ بیرون ملک ہوئے۔ جب اس نے یہ گیت گایا: ’’ہم تو ہیں پردیس میں دیس میں نکلا ہوگا چاند اپنی رات کی چھت پر کتنا تنہا ہوگا چاند‘‘ تب پردیس میں بسنے والوں کے دل درد سے چھلک اٹھے۔ یہ کسی فنکار کی کتنی بڑی کامیابی ہے؟ اس سوال کا جواب اس فنکار کا فن ہی دے سکتا ہے جو آج بھی ہمارے دل میں دھڑکتا ہے۔ چند روز پہلے جب میڈیا کی معرفت معلوم ہو اکہ دس اکتوبر کے دن جگجیت سنگھ نے یہ دنیا چھوڑ دی تھی تب میرے دل میں خیال آیا کہ میں اپنے پسندیدہ فنکار کو الفاظ کی صورت میں خراج عقیدت پیش کروں۔ میں نے لکھنے سے قبل جگجیت سنگھ کی کیفیت میں دل ڈبونے کے لیے اس کا گیت سننا شروع کیا۔ پھر یہ ہوا کہ میں اس دن مسلسل اس کے گیت سنتا رہا۔ میں اس بات کو بھول گیا کہ مجھے اس پر کالم لکھنا ہے۔ یہ کالم آپ جگجیت سنگھ کی برسی کے دوسرے دن پڑھتے مگر اس کی آواز میں وہ جادو تھی جس نے میرے قلم کو قابو کرلیا اور میں اس دن صرف اس کو سنتا رہا ۔ جگجیت سنگھ کی آواز نے میری یادوں کی دنیا کو روشن کردیا۔ مجھے بھولے بسرے سپنے شدت سے یاد آئے۔ اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ بھارت میں جگجیت سنگھ جیسے فنکار محبت کو فروغ دیتے ہیں اور مودی جیسے سیاستدان نفرت کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہم جگجیت سنگھ کی سروں کا قرضہ کس طرح اتار سکتے ہیں؟ جب وہ یہ غزل گاتا ہے تب روح کو اداس کردیتا ہے: ’’تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا زندگی دھوپ تم گھنا سایا‘‘ اس غزل کا ایک شعر اس وقت بھی میرے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے: ’’آج پھر دل نے اک تمنا کی آج پھر ہم نے دل کو سمجھایا