ملک کو سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھے گا۔اگرچہ عوام کی وفاقی حکومت سے توقعات اور پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ سخت فیصلے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے مگر اس کا ایک حل موجود ہے۔وزارت پیٹرولیم کا تجربہ رکھنے والے اوراکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن کی جانب سے حل کا اشارہ دینے پر وزیراعظم شہباز شریف چونک گئے۔وزیراعظم ہاؤس میں جاری اس ملاقات میں وزراء بھی موجود تھے۔ اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقراررکھنے کی باردوی سُرنگ قومی خزانہ تباہ کردے گی۔ملکی معیشت سمیت تمام منصوبوں کو ریورس گئیر لگ جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فوراً مجوزہ حل پوچھ لیا جس پر تمام وزراء بھی حیران ہوگئے۔ ایک آدھے وزیرکو تو ایسے لگا کہ جیسے اگلے لمحے اُنکی وزارت بس گئی۔وزیراعظم سمیت تمام وزراء کی توجہ حکومت کو درپیش سب سے بڑے چیلنج کے حل پر مرکوز ہوگئی۔اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن نے پیٹرولیم مصنوعات 30روپے فی لیٹر تک مہنگی کرنے کی تجویز کی مخالف کرتے ہوئے کہا کہ آپ لانگ مارچ کی پروا ہ کئے بغیر فوری طور پر پٹرول پر 50روپے فی لیٹر بڑھا دیں مگر خدارا ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت کو ابھی کسی صورت مت بڑھائیے گا۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں اضافہ براہ راست تمام اشیاء کی قیمت میں خوفناک اضافے کا باعث بنے گا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںپر نظرثانی 15کی بجائے ایک ماہ بعد کی جائے۔ تیسری تجویز کے مطابق توانائی کے شعبے میں بدترین بد انتظامی اور لوٹ مار ہورہی ہے۔ پٹرول وڈیزل پر پریمیم 2ڈالر کی بجائے 22ڈالرتک ادا کیا جارہا ہے۔پیٹرولیم مصنوعات فوری طورپر ایف او بی بنیاد پر خریدی جائیں۔ پی ایس او کو پورٹ پر اربوں روپے ماہانہ ڈیمرج اد اکرنا پڑرہے ہیں۔ ان تمام معاملات کی فوری تحقیقات کی جائیں تو ایک ماہ کے اندر اربوں روپے کی بچت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کا سلسلہ روکنے میں معاون ثابت ہوگی۔ وزیراعظم نے تجاویز سننے کے بعد متعلقہ حکام کو معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے ملاقات ختم کردی۔ان معاملات کی انکوائری شروع تو نہ ہوسکی مگر حکومت نے 26مئی کو پیٹرول وڈیزل سمیت تمام پیٹرولیم مصنوعات 30روپے فی لیٹر تک مہنگی کردیں۔حکومتی اقدام سے اب شاید آئی ایم ایف کو رام کرلیا جائے مگر ملکی معاشی صورتحال نے ایک اور سنگین چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ دوسری جانب پیٹرولیم ڈویژن نے وزیراعظم کودو روز قبل آگاہ کیا کہ تیل کی درآمدات کے انتظامات دن بدن مشکل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ غیر ملکی بینک آئل مارکیٹنگ کمپنیوںکی طرف سے کھولے گئے لیٹر آف کریڈٹ (LCs) پرفنانسنگ فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ سائز اور پروڈکٹ کے لحاظ سے 50-75 ملین ڈالر مالیت کے تقریباً چھ کارگو اس وقت روکے گئے ہیں کیونکہ سخت مالی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے بارے میں متعلقہ وزارتوں کے کچھ تنقیدی بیانات کے بعد بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے عالمی بینکوں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔ پاکستانی بینک آئل انڈسٹری کی جانب سے ایل سی کھول رہے ہیں، لیکن ان کے پارٹنر بینک کریڈٹ کور میں توسیع نہیں کر رہے ہیں۔غیر ملکی بینکوں کے اس اقدام کے نتیجے میں سپلائی چین ٹوٹ سکتی ہے۔آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے پیٹرولیم اور خزانہ کی وزارتوں کو اطلاع دی ہے کہ ''تشویش کے دو اہداف والے علاقوں میں فوری تدارک کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس میں تیل کی درآمدات کے لیے ایل سی کی تصدیق کرنے میں بین الاقوامی بینکوں کی ہچکچاہٹ اور قیمت کے فرق کے دعووں کی بروقت ترسیل شامل ہے مگر ہم فی الحال اس جانب توجہ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مہنگی پیٹرولیم مصنوعات کیساتھ دوسرا بڑا گیس کی قلت اور مہنگی درآمدی گیس ہے جس کے باعث ایک جانب ملک میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ جاری ہے تو دوسری جانب جو بجلی پید اہورہی ہے اس پر ماہانہ فیول لاگت اربوں روپے بڑھ رہی ہے ۔ پیٹرولیم ڈویژن کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ جس وقت ملک کو سستے ایک ایک مالیکول کی اشد ضرورت ہے اسی لمحے 250ملین کیوبک فٹ گیس ملکی سستی گیس کوسسٹم میں شامل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔جس سے سالانہ تقریباً 2 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔اس گیس کی راہ میں رکاوٹ کوئی اور نہیں بلکہ پیٹرولیم ڈویژن کے ماتحت ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کنسیشن کی لیگل کنسلٹنٹ ہیں ۔2016 میں وزارت توانائی نے انھیں کولیگل کنسلٹنٹ تعینات کیا، جس کے بعدوہ غیر ضروری قانونی چارہ جوئی اور عدالتی مقدمات میں کمپنیوں کو گھسیٹ رہی ہیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں اس وقت لگ بھگ 18 ایکسپلوریشن لائسنس کی میعاد ختم ہو چکی ہے ۔تقریباً 60 کان کنی اور ڈی اینڈ پی لیز کی میعاد ختم ہو چکی ہے اور ان میں توسیع کا انتظار ہے۔ 21 فیلڈز ایکسٹینڈ ویل ٹیسٹنگ (EWT) کے تحت ہیں اور لیز میں تبدیلی کے منتظر ہیں جبکہ آٹھ نئی EWT درخواستیں منظوری کے لیے زیر التوا ہیں۔ یہ امور طے نہ ہونے کے باعث 250ملین کیوبک فٹ یومیہ ملکی سستی گیس سسٹم میں شامل نہیں ہوپارہی۔وزارت توانائی اور اس کے اعلیٰ حکام عدالتی تصفیے سے باہر پہنچ کر اس وقت طلب اور مہنگے مقدمے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ریکوڈک کیس میں حالیہ آؤٹ آف کورٹ تصفیے نے قوم کو بھاری ادائیگی سے بچایا ہے لیکن لیگل کنسلٹنٹ آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کی بھی مخالف ہیں۔ اس سستی گیس کی سسٹم میں شامل ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔بادی النظر میں انکا یہ اقدام ملکی میں درآمدی گیس کی راہ ہموار کرنا اور تیل وگیس کی تلاش وپیداوار میں شریک کمپنیوں کی حوصلہ شکنی ہے۔ وطن عزیز سنگین معاشی چیلنج سے نبردآزما ہے ۔ اپوزیشن اور مخلوط حکومت کے مابین جاری سیاسی جنگ کے باعث عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا مگر یہاں سب کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ حکومت آج گئی۔۔۔کل گئی۔ یہ سیاسی عدم استحکام ملک کے خلاف بہت بڑی سازش ہے اور اس سازش کوتمام محب وطن مل بیٹھ کر ہی ناکام بنا سکتے ہیں۔