برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کی طے شدہ سکیم کے مطابق پاکستانی علاقوں کے ہندو افسروں اور جوانوں کو چوائس دی گئی کہ وہ چاہیں تو انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کر لیں۔ اسی طرح بھارتی علاقوں کے مکین مسلمان اہلکاروںکوپاکستان آرمی کے انتخاب کا موقع دیا گیا۔ انڈین آرمی کا حصہ بننے والی یونٹس کے مسلمان افسروں اور جوانوں کی اکثریت نے جہاں پاکستان آرمی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تووہیں ایک بڑی تعداد نے بھارت میں ہی رہنا پسند کیا۔ جب نامزدیونٹس نے اپنے اپنے ملک روانگی کا عمل شروع کیا تو بے حد خوش دلی، فوجی روایات اور اعزاز کے ساتھ اپنے پرانے ساتھیوں اور سابقہ یونٹوں کو رخصت کیا گیا۔دہلی میں پروبن ہارس نے اپنے پاکستان جانے والے مسلمان سکوارڈن جبکہ راولپنڈی میں 2کیولری رجمنٹ نے بھارتی فوج کا انتخاب کرنے والے ہندو اور سکھ ساتھیوں کے اعزاز میں پرتکلف ’بڑے کھانوں‘کا انعقاد کرتے ہوئے اس عزم کے ساتھ رخصت کیا کہ ’ہم جہاں بھی جائیںگے، ہم بھائی ہی رہیں گے، کیونکہ ہم نے ایک ساتھ اپنا لہو گرایا ہے‘۔چند ہی مہینوں کے اندر مگر دونوں اطراف کے پرانے ’کامریڈز اِن آرمز‘کشمیر کے پہاڑوں پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ طے شدہ بندوبست کے تحت آزاد مملکتوںکی افواج میںتعینات برطانوی افسروں نے ایک مقررہ مدت تک برصغیرپاک و ہند میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینی تھیں۔پالیسی کے مطابق مگر دونوں ملکوں کے مابین جنگ کی صورت میں دونوں طرف تعینات برطانوی افسروں کو اس کا حصہ نہیں بننا تھا۔کشمیر کا میدان گرم ہو ا توپاکستان آرمی کے برطانوی کمانڈر ان چیف نے کچھ اسی پسِ منظر میں پاکستان کے گورنر جنرل کا فوجی دستوں کی کشمیر میںتعیناتی کا حکم ماننے سے معذوری ظاہرکر دی ۔ متعدد عوامل کی بناء پر آزادی کے فوراََ بعدکے ابتدائی مہینوں میںیہ احساس پیدا ہونے لگاکہ پاکستان آرمی مظلوم کشمیریو ںکی آزادی کے لئے ہندوئوں سے بر سرِ پیکار’ مسلم فوج ‘ہے۔دوسری طرف کشمیر میں قبائلی جہادیوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے والے افسران کو موقع ملا تو انہوں نے جی ایچ کیو میں برطانوی ہائی کمانڈ سے بالابالا کراچی میں ’سیاسی قیادت ‘سے براہِ راست تعلقات استوار کر لئے، کہ جس کی باضابطہ شکایت خود برطانوی کمانڈر ان چیف نے گورنر جنرل سے ایک ملاقات میں کی۔ بعض فوجی افسران نے قائد کے دورہ سٹاف کالج کوئٹہ کے دوران ان سے ملاقات میں حکومت کی کشمیرپالیسی میں تساہل پربھی تحفظات کا اظہار کیا۔قائد نے ہر دو رویوں کو نا پسندکیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے حاضرین پر واضح کیا کہ چاہے اُن کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا فرقے سے ہو، وہ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔جبکہ اسی خطاب میں سیاسی معاملات میں مداخلت کی بجائے ’ریاست کے سربراہ ‘کے احکامات کے تابع ہونے کے باب میں قائداعظم نے انہیں اُن کا حلف پڑھ کر سنایا ۔ 1819 ء میں کلکتہ میں ہندو کالج کے قیام اور صدی کی آٹھویں دہائی میں علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھے جانے میں 60 برسوں کافاصلہ ہے۔ یہ تعلیمی فاصلہ طے کرنا تو درکنار، برصغیر،بالخصوص پاکستان کے مسلمان آج اس سے بھی کہیں پیچھے جا گرے ہیں۔ نتیجے میں گزرتے عشروں آج امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں کے سرکاری اور دنیا پر حکمرانی کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اندر اہم عہدوں پر بھارتی جا بجا براجمان ہیں۔دوسری طرف پاکستانیوں کے لئے نچلے درجے کی ملازمتیں اوروہی کام کاج بچے ہیں جن میں تعلیم یافتہ ہونا بنیادی ضرورت نہیں۔ایسا راتوں رات نہیں ہوا ۔ آج ہندوستان میں تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں پائی جانے والی وسعت در حقیت انیسویں صدی میں بنیاد پرست ہندئوں کے مقابلے میںاٹھنے والی براہمو سماج جیسی تحریکوں سے لے کر نہرو کے ’سائینسی مزاج (Temper)‘ تک کا ثمر ہے۔ آزادی کے فوراََ بعد سے لے کر اگلے پچاس برس بھارت نے کثیر الجہتی ، سیکیولر اور سائینسی نظامِ تعلیم کو ملک میں مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے پر صرف کئے۔آج اسی کا پھل کھا رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس کے مقابلے میںتعلیمی لحاظ سے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اولین برسوں کے دوران قومی اداروںکی مضبوط بنیادیں رکھنے میں ہماری ناکامی کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے ہاں تعلیمی نظام ہی نہیں زندگی کا ہر شعبہ مسلسل زوال پذیر ہے ۔ ہماری اس قومی تنزلی کی بنیادی وجہ ابتدائی برسوں میں ادارہ سازی کی بجائے نو زائیدہ مملکت کا مختلف نوعیت کے مفاد پرست گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بن جانا ہی سمجھا جاتا ہے۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ اندورنی خلفشار کے ہاتھوں ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی۔ بڑی بڑی جاگیروں اور’ ریاست کے اندر ریاستوں کے مالکان‘ وڈیرے،خوانین، نواب اور سردار ہر قسم کی سیاسی، معاشی اور تعلیمی اصلاحات کے سامنے دیوار بن کر کھڑے تھے۔چنانچہ جہاں بھارت میں بڑی بڑی جاگیروں ،راجوں اورنوابوں کی ریاستوں کا خاتمہ کیا جا رہا تھا، پاکستان میں Elite Capture جڑیں پکڑ رہا تھا۔ مذہبی جماعتیں ، حتی کہ وہ بھی کہ جنہوں نے قیامِ پاکستان کی بھر پور مخالفت کی تھی،قائد کے پاکستان کو اب ’مسجد‘ قرار دے کر ملک میں اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنے کے لئے متحرک ہو چکی تھیں۔ سال 1953 ء میں ہونے والے پہلے مذہبی فسادات کے پیچھے انہی میں سے ایک ایسے مذہبی گروہ کا ہاتھ تھا، جو قائدِ اعظم اور قیامِ پاکستان کی مخالفت کی پہچان رکھتا تھا۔اسی پرآشوب برس کے دوران لاہور شہر میں امن و امان کی بحالی اور صفائی ستھرائی کے کام کے مکمل کئے جانے پر ’انگش‘ اخبار نے جنرل اعظم کو بتایا کہ قوم ان کا احسان برسوں یاد رکھے گی۔ قومی رہنمائوں کی باہم ریشہ دوانیوں اور اس کے نتیجے میں عوام کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی سے سول اور ملٹری بیورکریسی کے گٹھ جوڑ نے پورا فائدہ اٹھایا۔اس امر کے شواہد موجود ہونے کے باوجود کہ جنرل ایوب میں سیاسی مہم جوئی کے جراثیم بہت پہلے سے پائے جاتے تھے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی اور خود غرضی نے ان کواقتدار پر قابض ہونے کی جرآت عطا کی۔ مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان ہوا تو عوام نے کھلی بانہوں سے فوجی حکمران کو خوش آمدید کہا۔سرکاری ملازمین دفتروں میں وقت پر آنا شروع ہو گئے۔ دکانداروں نے نرخ نامے آویزاں کر دئیے۔ذخیرہ اندوزوں نے گوداموں کے منہ کھول دئیے۔ ملاوٹ زدہ خوراک بھاری مقدار میں راتوں رات ندی نالوں میں بہا دی گئی۔ پورے ملک میں سویلین حکمرانوں کو گھر بھیجے جانے پرہر طبقے میں پائے جانے والے اطمینان کایہ عالم تھا کہ ڈاکٹر اشتیاق احمداپنی کتاب Pakistan:The Garrison State میں لارنس زائرنگ کی کتاب The Ayub Khan Era کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پہلے مارشل لاء کے نفاذ پرخود مادر ملت نے صدر ایوب کے لئے نیک تمنائوں کااظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ نئے حکمران معاشرے کو لاحق امراض اور ملک کو درپیش بد انتظامی کا خاتمہ کریں گے۔ (جاری ہے)