بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہروں میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب کا کلام چھایا ہوا ہے۔فیض اور حبیب جالب کے انقلابی ترانے ہندوستان میں گلی گلی گونج رہے ہیں۔ طلبہ اور نوجوان فیض اور جالب کی نظمیں گا گاکرمودی کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمہاراظلم اورتمہارایہ سیاسی جبرمساوات اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے جوہمارے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ فیض اور حبیب جالب کی نظموں کے اشعار نعروں کی صورت مودی سرکار کو للکار رہے ہیں اورمودی کے بام ودرکوہلارہے ہیں۔ بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران خاص طور پر نوجوانوں نے انقلابی شاعرجالب کی مشہور ترین نظم’’ دستور‘‘ کو اپنا نعرہ بنا لیا ہے۔کسی دور میں حبیب جالب ہر مظلوم کے دل کی آواز بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جبر کے خلاف اٹھ کھڑاہوناہو، طبقاتی نظام سے لڑنا ہو یا کروڑوں عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانی ہو تو آج بھی حبیب جالب کے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے۔ دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا میں بھی خائف نہیں تختہء دار سے میں بھی منصور ہوں کہہ د و اغیار سے کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا مودی کے جنون کی نذر ہوتے بھارت اور ہندتوا کی آگ میں جلتے ہندوستانی معاشرے کے سنجیدہ، باشعور، نڈر اور بے باک عوام شاعرِ انقلاب کی مشہور نظم دستور سے حق و انصاف کا الائو بھڑکاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔احتجاج اورمظاہروں کے دوران حبیب جالب کی نظمیں پڑھی جارہی ہیں اور بینروں پر ان کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔مودی کادورحکومت انتہائی خونخوارہے اس نے مسلمانان ہندوستان پرعلیٰ الاعلان ظلم و استبداد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس سفاکانہ دور میں مسلمانان ہندوستان کافیض اورحبیب جالب کی حق و انصاف کی ایک توانا اور ناقابلِ تسخیر آواز بلند کرنا ہر لحاظ سے جائزہے۔ تاریخ میں صدائے حق بلند کرنے کے لئے حبیب جالب کی انقلابی شاعری بہترین نمونہ ہے۔ حبیب جالب ہمارے شعری افق پراس وقت نمودار ہوئے تھے جب قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ تحریکِ پاکستان میں سرگرمِ عمل تھی۔ اس تحریک کے زیرِاثرحبیب جالب ایک رومانی شاعر سے انقلابی شاعر کی منزل کی جانب گامزن ہو گئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال فراموش کر دیئے گئے تب جالب کی شاعری انقلابی سیاسی عمل کی نغمہ بن گئی۔ احمد ندیم قاسمی نے جالب کی شاعری کے اس ارتقائی سفر کے بیان میں لکھا ہے کہ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ لمحے فن میں ڈھل کر صدیاں بن جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو مولانا ظفر علی خاں کی استعمار دشمن شاعری ہے، ان کے فورا بعد حبیب جالب کا نام آتا ہے۔ فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے‘ ‘ نے مودی کے سب گروندے اڑادیئے۔بھارت میں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہرین کو کچلنے کے لیے مرکز کی مودی اور اترپردیش کی یوگی حکومت کی طرف سے جاری سخت اقدامات کی زد میں پاکستان کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض بھی آگئے ہیں۔جبکہ انڈیا میں ٹیکنالوجی کے انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر منندر اگروال کے مطابق آئی آئی ٹی کے بعض طلبا نے ادارے کے ڈائریکٹر سے تحریری شکایت کی کہ مظاہرے کے دوران ہندو مخالف نظم پڑھی گئی ہے جس سے ہندئووں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اس لئے ا ان طلبا کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے یہ نظم پڑھی ہے۔واضح رہے کہ شکایت کنندگان طلبا کالبادہ اوڑھے ہوئے دراصل یہ آرایس ایس سے وابستہ ہندو غنڈے تھے ۔ 15دسمبر 2019ء کو دلی کے جامعہ حلیہ السلامیہ میں اس قانون کے خلاف مظاہرہ ہوا جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء بھی شامل تھے۔ اس دوران پولیس نے یونیورسٹی کی لائبریری اور ہوسٹل میں زبردستی داخل ہوکر طلبا پر بے حد تشدد کیا۔پولیس کی اس کارروائی کے بعد جامعہ کے طلبا کی حمایت میں نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر نامور یونیورسٹیز جیسے آکسفورڈ، کیمبرج، ہارورڈ، اور نیویارک یونیورسٹی میں مظاہرے ہوئے۔فیض احمد فیض کی شاعری کو ہندو مخالف کہنے پربھارتی شاعرونغمہ نگار جاوید اختر میدان میں آگئے اور کہا کہ فیض کی نظم کو اینٹی ہندو کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے، فیض احمد فیض کی نظم آزادی اظہار پر پابندیوں کے خلاف ہے۔ معروف بھارتی دانشور اور مورخ ایس عرفان حبیب نے آئی آئی ٹی کانپور کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ آئی آئی ٹی جیسا معیاری تعلیمی ادارہ فیض احمد فیض کی انقلابی نظم’’ہم دیکھیں گے‘‘ کے مقصد، معنی اور پس منظر کو سمجھ نہیں سکا اور اس سے بھی زیادہ بدترین بات یہ ہے کہ ایک کمیٹی یہ پتہ لگا رہی ہے کہ یہ ہندو مخالف ہے یا نہیں۔بھارت کے معروف ماہر سماجیات، مصنف اور سابق رکن پارلیمان پرتیش نندی نے بھی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو اس نظم میں کون سی قابل اعتراض بات دکھائی دی؟ ان کاکہناتھاکہ فیض کا فرقہ پرستی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ دبے کچلے ہوئے طبقات کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ہندو مخالف نکتہ نظر تلاش کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔انکوائری کمیٹی کے سربراہ منیندر اگروال کے مطابق شکایت کنندگان کو سب سے زیادہ اعتراض درج ذیل اشعار پر تھا: جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے ہم اہل صفا مردود حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے