آج بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دست راست ، تحریک پاکستان کے نامور قائد اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم ’’قائد ِ ملّتؒ ‘‘68 ویں برسی ہے ۔16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ (اب لیاقت باغ) میں ’’قائدِ ملّتؒ ‘‘ کو ڈیوٹی پر موجود پولیس انسپکٹرسیدؔ اکبر نے 2 گولیاں چلا کر اُنہیں شہید کردِیا تھا ، پھر راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نجم خان نے پولیس اہلکاروں کو حکم دِیا کہ ’’ گولی چلانے والے ( قاتل ) کو فوراً مار ڈالو ، پھرسیدؔ اکبر ہلاک ہوگیا، پھر پتہ نہیں چل سکا کہ ’’ قائد ِ ملّتؒ کی شہادت میں سازشی کردار کس کس کا تھا؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ قائد ِ ملّتؒ کی شہادت سے متعلق مَیں نے 19 اپریل 2013ء کو اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ جن لوگوں نے قائدِ ملّتؒ کو شہید کرایا تو، اُنہوں نے سکندرِ اعظم کے والد، مقدونیہ کے بادشاہ فیلقوس (Philip II ) کے قتل کی پوری تفصیل اور اْس کے رموزونکات کا باریک بینی سے، ضرور مطالعہ کِیا ہوگا۔ 336 قبل از مسیح میں، بادشاہ فیلقوس کی بیٹی کی شادی تھی۔ شادی کی تقریب میں ،اہلِ دربار جمع تھے کہ، مقدونیہ کی اشرافیہ کے ایک نوجوان نے، فیلقوس پر، اچانک حملہ کرکے، اْسے قتل کر دیا۔ موقع پر موجود، شاہی فوج کے محافظوں نے، طیش میں آ کر، اپنے بادشاہ کے قاتل کو فوراً ہی ہلاک کر دیا تھا۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے قاتل، سَید اکبر کو بھی، راولپنڈی کی جلسہ گاہ میں، موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جِس طرح یہ پتہ نہیں چل سکا کہ، بادشاہ فیلقوس کو قتل کرانے والے، خُفیہ ہاتھ کون کون سے تھے؟ اُسی طرح وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو قتل کرانے والے، خفیہ ہاتھوں کا بھی پتہ نہیں چلایا جا سکا؟۔ بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ، فیلقوس کو اْس کی ملکہ (اولمپیاس) نے قتل کرایا تھا کیونکہ، فیلقوس نے، اپنی دوسری بیوی قلوپطرہ کے بیٹے کو، اپنا ولی عہد نامزد کر دیا تھا۔ سکندرِ اعظم نے، اپنے باپ کے قتل کی سازش میں۔ (مبّینہ طور پر)۔ ملوث اپنی ماں کو، سزا نہیں دی اور نہ ہی کسی عدالت سے دِلوائی۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کرنے پر، بعض مسلم لیگی لیڈروں نے، اْس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ پر (جلسوں اور اخباری بیانات میں) الزام لگایا تھا، لیکن اْن لیڈروں میں سے، کسی نے بھی تھانے میں جا کر، دولتانہ صاحب کے خلاف ایف۔ آئی۔ آر۔ درج نہیں کرائی۔ معزز قارئین!۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کی طرح ’’ قائدِ ملّت ‘‘ لیاقت علی خان بھی اہل بیت ؑ اور آئمہ اطہار ؑ کے عقیدت مند اور خُود صاف ستھرے کردار کے مالک تھے۔ قائداعظمؒ نے اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھااور ’’ قائدِ ملّت ‘‘ نے نئی دہلی میں اپنا عظیم اُلشان بنگلہ حکومتِ پاکستان کو بطور تحفہ پیش کردِیا تھا۔ اُس بنگلے میں پاکستان ہائی کمشن کے دفاتر قائم ہیں ۔ مجھے وہاں دو بار جانے کا اتفاق ہُوا ۔ ایک بار جولائی 2001ء میں آگرہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر ، صدر جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اور دوسری بار جب مَیں جون 2005ء میں خواجہ غریب نوازؒ کے دربار میں حاضری کے لئے اجمیر شریف حاضر ہُوا تھا ۔ مَیں نے دونوں بار پاکستان ہائی کمشن دہلی میں ۔’’ شہید ِملّت ‘‘ ۔ خان لیاقت علی خان کی عظمت کو سلام کِیا۔ جو سابقہ صدور اور وزرائے اعظم کرپشن کے مقدمات میں ملوث ہوں اور بیرونی ملکوں میں لوٹی ہُوئی قومی دولت جمع کرانے اور اپنے اور اپنی اولاد کے نام سے جائیداد بنانے میں رُسوا ہوں ، اُنہوں نے ’’ قائد ِملّت ‘‘ کے یوم شہادت پر زبانی جمع خرچ کِیا لیکن، کیا اُن میں سے کوئی بیرونی ملکوں میں اپنی جائیداد پاکستان کے سفارتخانوں کے لئے وقف کرسکتا ہے؟۔ کل پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیمی اداروں اور سماجی تنظیموں نے ’’ شہید ِملّت ‘‘ کی یاد میں تقاریب منعقد کیں۔ معزز قارئین!۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو تھے ، جنہوں نے ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے ایک لیڈر کی حیثیت سے (اپنے طور پر ) تحریک ِ آزادی کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن، وہ ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے باپو ؔ ، شری موہن داس کرم چند گاندھیؔ کے افکار و نظریات کے مطابق ، قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو (15 اگست 1947ء سے 27 مئی 1964ء تک ) بھارت کے وزیراعظم رہے۔ ’’قائد ِ ملّت ؒ کا مُکّا!‘‘ جولائی 1951ء میں بھارت نے سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کردیںتو، پاکستانی عوام کا "Morale" بلند کرنے کے لئے قائدِ ملّت نے 27 جولائی 1951ء کو خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ برادرانِ ملّت !۔ یہ پانچ انگلیاں جب تک علیحدہ ہوں اُس کی قوت کم ہوتی ہے لیکن ، جب یہ مل کر مُکاّ بن جائیں تو مکاّر دشمنوں کا مُنہ توڑ سکتا ہے! ‘‘۔قائد ملّتؒ مسلسل تین منٹ تک اپنا تاریخی مُکاّ تان کر رکھا جو، بہادری کے پیکر کی حیثیت سے ایک علامت بن گیا۔مَیں مختلف ادوار میں فوجی آمروں کی خواہش / ہدایت پر مسلم لیگ کے نام سے بنائی گئی درجنوں سیاسی جماعتوں سے توقع نہیں کرتا کہ وہ ، قائد ِ ملّتؒ کی پیروی کرتے ہُوئے ، بھارت کو مکّار دشمن قرار دیتے ہُوئے ، اُس کی طرف ، فضا میں مُکّا لہرائیں اور اُس پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دیں؟ ۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے ’’ روحانی فرزند‘‘ آصف علی زرداری صاحب نے 9 ستمبر 2008ء کو صدارت کا منصب سنبھالتے ہی خُود کلامی ؔ کے انداز میں کہا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں؟‘‘۔ صدر زرداری نے ،اپنے اِس مقصد کی تکمیل کے لئے ، تحریکِ پاکستان کے مخالف کانگریسی مولویوں کی باقیات فضل اُلرحمن صاحب کو ،(وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ ) کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کِیا۔ اُن کے بعد ’’ پاکستان مسلم لیگ ‘‘ (ن) کے صدر کی حیثیت سے ، قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھنے والے وزیراعظم نواز شریف نے بھی، فضل اُلرحمن صاحب ہی کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھالیکن، قدرت کے فیصلے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے داماد سابق صدر آصف علی زرداری اور شہید صدر جنرل ضیاء اُلحق کے منہ بولے فرزند میاں نواز شریف کے خاندان تو، نشانِ عبرت بن گئے ہیں۔ کاش اُنہوں نے بھی قائدِ ملّت کی طرح بھارت کے کسی وزیراعظم کو مُکّا دِکھایا ہوتا تو، وہ بھی (کم از کم ) دُنیا میں تو باعزّت زندگی بسر کر رہے ہوتے؟۔