سیدنا معاذ بن جبلؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں رحمت کون و مکاں، سرورِ دو جہاں صلعم کی تربیت کی برکت سے اللہ تعالی نے انہیں بہت اونچا رتبہ عطاکردیا۔ آخرت میں اپنے پروانہ رضا کا وعدہ بھی فرمایا اور دنیا میں بھی اللہ کے نبی نے انہیں یمن کے گورنر و والی کے طور پر تعینات فرمایا۔سیدالانبیاء جب انہیں گورنری کے لیے یمن بھیج رہے تھے تو آپؐ انہیں ؓشاندار انداز میں وصیت فرما رہے تھے ،جس میں آپؐ نے یہ بھی فرمایااے معاذمظلوم کی بددعا سے بچو! بلاشبہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی۔(بخاری کتاب المظالم و الغصب )معلوم ہوا کہ سب گناہوں میں سے ظلم ایسا بے رحم گناہ اور بدتر جرم ہے کہ اللہ کریم کو برداشت نہیں۔ اسی لئے ہر حال میں ظلم سے بچنے کی تاکید وصیت فرمائی گئی ہے اور قرآن و سنت میں جابجا اس کی بہت سی قباحتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ گزشتہ تین عشروں سے بالخصوص دنیاپرمسلط ظالم حکمرانوں نے درندگی کی ساری حدیں پار کر دیں اوردنیاکے کئی گوشوں میں نہاہت بے رحمانہ طریقے سے انسانیت کابے دریغ قتل کیا۔گوانتاموبے اور بگرام ائرپورٹ سے لیکرسری نگرکے کارگوعقوبت خانوںمیں مسلمانوں کوبے رحم تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اتنا بدترین تشدد کہ داستان غم و الم سننے سے روح وبدن کانپ اٹھتے ہیں گویا زمین پائوں کے نیچے سے کھسک جاتی ہے ۔اس دوران مظلومین کی آخری صدایہ ہواکرتی ہے کہ ظالمو! ایک بات یاد رکھو !کہ مظلوم کی آہ میں اور رب کے عرش کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اور جب مظلوم کی آہ رب کے عرش سے ٹکرائے گی تو تمہیںظلم ڈھانے کی قیمت اسی زمین پہ ہی ادا کرنی پڑے گی۔ ڈاکٹرعافیہ صدیقی سے لیکرآسیہ اندرابی تک ان پاکبازخواتین کے ساتھ کس طرح کاسلوک روارکھاجارہاہے ۔سنتا جا شرماتا جا۔ مگرافسوس یہاں شرمانے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ظالم حکمران نہایت طمطراق سے اپنے مجرمانہ کرداروعمل کا دفاع کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے نہ ان کی آنکھیں جھکی ہوتی ہیں اور نہ ان کی جبینوںپر عرق انفعال کے قطرے ہوتے ہیں۔ میں پہلے یہ سمجھ رہاتھاکہ کیاابوجہل جیساکوئی سنگ دل اس دنیامیں پھرکبھی جنم لے سکتاہے کہ جس نے سیدہ حضرت سمیہ کے ساتھ نہایت سنگدل سلوک روارکھا مگرخدانے سمجھایااوردکھابھی دیاکہ کرہ ارض ابوجہلوںسے بھری پڑی ہے ۔ روز قیامت رب ذوالجلال اپنے تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ یہ سوال کرے گا کہ اے فلان بن فلان کس جرم کی پاداش میں یوں بے دردی کے ساتھ کشمیرسے فلسطین ،افغانستان سے عراق،شام سے برمااوربھارت تک مسلمانوں کا قتل عام کیا ۔کیوں بے جرمی میںمردو زن،عمررسیدہ لوگوں اور معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا؟دنیاکی کسی بھی عدالت میں امریکہ اوراس کے اتحادیوں،بھارت اوراسرائیل کے خلاف کوئی مقدمہ اور کوئی رپٹ درج تو نہیں ہوتی لیکن دربارایزدی نے ثابت کردیاکہ یہاں دعویٰ درج کیاجاچکاہے ۔مظلوم کی فریادپروردگار تک پہنچ چکی ہے جس پر عرش کانپ اٹھتا ہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظالم کو اسی وقت سزا ہوتی ہے نہیںبلکہ اللہ پاک جس طرح چاہتا ہے ویسے حکم دیتا ہے۔کبھی فورا سزا دیتا ہے کبھی ایک معیاد کے بعد۔اللہ کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ہے۔ ظالم ہونا، ظلم کرنا یا ظالم کی طرفداری کرنا تو دور کی بات ہے۔ محض مظلوم کو دیکھ کر اس کی مدد نہ کرنا بھی باعثِ عذاب ہے۔ظالم کاساتھ دینے پربھی بڑی تنبیہ کی گئی ہے اورکڑی وعیدسنائی گئی ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ظالموں کی جانب جھکائو رکھنے پر متنبہ فرمایا ہے۔سورہ ہودمیں فرمایاگیاترجمہ! ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاو گے، اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے، اور تم کو کہیں سے مدد نہ پہنچے گی۔ رسالت مآب صلعم نے مسلمانوں کو خبردار کر دیا ہے تاکہ کوئی بھی مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد نہ کرے، اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اس ظالم کا شریک کار سمجھا جائے گا۔یہی جھکائو اورکسی بھی طرح کی مددواعانت دنیا بھر کے ظالموں کو ظلم بڑھانے پر مائل کرتی ہے، اور وہ بلا خوف وتردد انسانوں پر ظلم کے نت نئے طریقے اپناتے ہیں۔ دنیاکے کتنے ایسے پلیٹ فارم ،فورم اورادارے ہیں جن میں مظلوموں کی آواز اٹھانے کے بجائے ظالموں سے خیر سگالی کا اظہار کیا جاتا ہے، اور مظلوموں اور ان کے خیرخواہوں پر نکتے اٹھائے جاتے ہیں یا انھیں مطعون کیا جاتا ہے، ایسے سب فورموں پر ظالم کی جانب جھکائو اور ظلم پر اس کی اعانت کے زمرے میں آتا ہے۔یہی جھکائو اوراس اعانت کی بدترین صورت یہ ہے کہ ظالم کا ظلم دنیا کے لیے خوشنما بن جاتا ہے، اور مظلوم کی چیخیں اور آہیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں، یا ان پر کوئی کان نہیں دھرتا، کیونکہ ظالم کی جانب دنیا کا میلان اور جھکا ئوہوتا ہے اور مظلوم انہیں دکھائی نہیں دیتا، یہی وہ صورت ِ حال ہے جس کا مشاہدہ آج ہم کررہے ہیں کہ افغانستان کھنڈر،عراق کھنڈر،شام کھنڈر،یمن کھنڈر،غزہ کھنڈراورکشمیرخونین۔دنیاکے فورموں اور اداروں میںبیٹھے عصرحاضرکے فرعون مظلومین کاسکھ وراحت اورآرام وچین چھین چکے ہیں۔اپنے ظلم کے ایوان میںابوجہل کی طرح زوردارقہقہے لگاکرمسلمان بستیوں کولگائی جانے والی آگ سے اپنے ہاتھ تاپتے رہے۔ تقدیس انسانیت کی قبا تار تار کرنے کے لئے یہ ظالم وخونخواربھیڑیئے ایک کے بعددوسرے مکرکے لیے اکٹھے ہوتے رہے ہیں، پھر سازشوں کے جال بنتے رہے ، مخلوق خداکومسلسل پیچ وتاب دلانے اوران پرلگاتارظلم جاری رکھنے کے لئے نئے بہتانوں کے تانے بانے بنتے رہے ہیں، جھوٹ، کذب اور فساد کی نئی تاریخ رقم کرتے رہے ، مکرکے زہرآلودہ تیر چلاتے رہے ہیں۔ لیکن انہیں کیا پتا خداکے ہاں دیرہے اندھیر نہیں۔ اللہ رب العزت بہترین تدبیر مظلوموں کے حق میں پیدا فرمادیتاہے اور جومظلوم کی آہ عرش سے ٹکرائی تھی تواس کی شنوائی پران ظالموں پرایک ایسانادیدہ اور انجان عذاب مسلط ہوتاہے کہ انہیں پیچ وتاب میںتڑپناپڑتاہے۔ تمام ترٹیکنالوجی کے حامل ہونے کے باوصف اللہ رب العزت ان کو ایک معمولی وائرس کے سامنے بے بس کرکے رسوا کردیتا ہے اور ان کے تمام مکر چاہے وہ پہاڑوں سے بلند تر کیوں نہ ہوں، ناکام ہوجاتے ہیں۔