دھرنے کی دھول اڑاتی خبروں اور اس حوالے سے ہونے والے تجزیوں میں کچھ ننھی منی خبریں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ مثلاً پچھلے ہی ہفتے ‘دو دنوں کے دوران حکومت نے تین قسطوںمیں بجلی مہنگی کر دی۔ پہلے 55پیسے فی یونٹ‘ اگلے روز نیپرا کے ذریعے ایک روپے پچپن پیسے اور پھر اسی روز شام کو کابینہ کے ذریعے 30پیسے یونٹ مہنگی کی گئی۔ یعنی لگ بھگ اڑھائی روپے کا اضافہ ہوا۔ جب سے حکومت آئی ہے اتنے اضافے بجلی کی قیمت میں ہو چکے ہیں کہ کسی کو یاد بھی نہیں۔ نئے اضافوں کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اس امید میں تھے کہ سردیوں میں پنکھے نہیں چلنے‘ اس لئے بل کم آئیں گے۔ ان کی امید پر بجلی گرا دی۔ اب بل اتنے ہی آئیں گے جتنے جاتی ہوئی گرمی کے مہینوں میں آیا کرتے تھے اور اگلی گرمیوں میں کتنے بل آئیں گے ان کا تو سوچ کر ہی پسینہ آتا ہے۔ سنا ہے کہ اس ’’گراں برقی‘‘ کے ذمہ دار بھی نواز شریف ہیں جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں چار فلیٹ چوری کے پیسوں سے لندن میں خریدے تھے۔ نہ خریدے ہوتے تو آج بجلی کتنی سستی ہوتی! ٭٭٭٭٭ دوسری خبر اور بھی ننھی منی سی یہ ہے کہ دوائوں کی قیمت میں سات فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انجمن حقوق مریضاں (پیشنٹس رائٹس فورم) کے صدر نور محمد مہر نے بتایا ہے کہ صرف ایک سال کے دوران دوائوں کی قیمت میں یہ پانچواں اضافہ ہے۔ مجموعی طور پر یا اوسطاً کہیے۔ دوائیں دوگنی مہنگی ہو چکی ہیں۔ اس خبر پر تبصرہ کے لئے دو ہی فقرے کافی ہیں۔ ایک تو انجمن حقوق مریضاں اپنا نام بدلے۔ مریضوں کے اب کوئی حقوق نہیں رہے۔ انجمن فریادِ مریضاں مناسب نام رہے گا۔ دوسرا یہ کہ انجمن کو خاں صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اصولاً ہر دو ماہ بعد ایک اضافے کے اصول کے تحت دوائوں کی قیمت میں سال بھر کے دوران چھ بار اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن خاں صاحب نے ’’احساس‘‘ پروگرام کے تحت ایک بار کا اضافہ ساقط کر دیا۔ یوں صرف پانچ اضافے ہوئے۔ پرویز الٰہی کہا کرتے تھے‘ ساری بات احساس کی ہے‘ اب یہ ساری بات ہوتے دیکھ لی۔ خبر میں مزید ہے کہ مریض میڈیکل سٹورز آتے ہیں اور قیمت کا سن کر دوائیں لئے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں مریضوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک تیسری خبر جو درمیانے درجے کی ننھی منی ہے‘ وزیر داخلہ اعجاز شاہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے سخن بے باک کی صورت ان کے دہانِ صدق بیان سے برآمد ہوئی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے فرمایا‘ نواز شریف اپنے اردگرد کے تین چار لوگوں کی باتوں میں نہ آتے اور صلح صفائی رکھتے(یعنی فرمانبرداری اوراطاعت کیشی کا مظاہرہ کرتے) تو چوتھی بار وزیر اعظم بن جاتے۔ وزیر موصوف پی ٹی آئی کے رہنما ہیں اس لئے صادق و امین ہیں۔ لیکن بائی ڈیفالٹ وہ پہلے ہی صادق امین تھے۔ گویا وہ ڈبل صادق امین(ریاضی کی زبان میں صادق امین طاقت دو) ہیں۔ ان کی بات کو وزن دینا اور سچ ماننا ہی پڑے گا اور پھر تشریح بھی کرنا پڑے گی۔ تشریح یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات اور سکینڈل محض نظریہ ضرورت تھے۔ اصل بات صلح و صفائی سے ان کا گریز تھا۔ تشریح نمبر دو یہ ہوئی کہ 2018ء کے انتخابات ‘ انتخابات نہیں‘ سلیکشن تھے۔ الیکشن ہوتے تو نواز شریف ہی کامیاب ہوتے35سیٹوں والے 35سیٹوں پر ہی رہتے لیکن چونکہ نواز شریف نے بات نہیں مانی‘ اس لئے مجبوراً دھرنے ‘ لاک ڈائون‘ ڈان لیکس اور پانامہ کی منزلیں طے کرنے کے بعد جولائی میں الیکشن کی شام35کے ہندسے کو 110میں بدلنا پڑا۔ اعجاز شاہ کی صدق بیانی بہرحال ریکارڈ کا حصہ بن گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ بریگیڈیئر ریٹائرڈ صاحب تو ٹھہرے ڈبل صادق و امین‘ سنگل صادق و امین شیخ رشید بھی یہی باتیں بہت بار کہہ چکے ہیں۔ یہ کہ نواز شریف کو فلاں اور فلاں کے مشوروں نے مروا دیا۔ سانجھ کی ہنڈیا نہ پھوڑتے تو آج بھی حکومت میں ہوتے جیل میں نہ ہوتے۔ اور چودھری نثار سالم ثابت و امین نہ سہی‘ تقریباً صادق و امین تو ہیں۔ وہ بھی کئی بار شکوہ کرتے پائے گئے کہ نواز شریف میری بات مان لیتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔اب لندن کے چار فلیٹ اورتین ہزار کروڑ روپوں کی چوری کو کس الماری کے کون سے خانے میں رکھا جائے؟ ٭٭٭٭٭ نواز شریف کو ہٹایا جانا‘ اس لئے بھی ضروری تھا کہ وہ دو قومی نظریے کے لئے سنگین خطرہ بن گئے تھے۔ دو قومی نظریہ علامہ اقبال والا نہیں بلکہ وہ جس کے بانی ایوب خاں تھے۔ یہ کہ ملک میں صرف دو قومیں رہ سکتی ہیں۔ دو فیصد ارب پتی‘98فیصد غریب‘ یہ تیسری قوم متوسط کلاس کہاں سے آئی۔ ایوب خاں نے اس تیسری قوم کے خلاف بھر پور جہاد شروع کیا۔ بھٹو کے آنے سے یہ جہاد متاثر ہوا۔ ان کے دور میں لوگ مڈل ایسٹ گئے۔ سٹیل ملز لگی اور دوسرے مواقع نکلے‘ متوسط قوم پھلنے پھولنے لگی۔ پرویز مشرف کا جہاد تیسری قوم کے خلاف زیادہ موثر تھا۔ ان دنوں کسی نے لکھا مڈل کلاسEndangered Specieبنتی جا رہی ہے۔ نواز شریف نے اس معدوم ہوتی قوم کو پھر سے ابھارا اور دو قومی نظریے پر کلہاڑا چلایا۔ اب دو ’’قومی نظریہ‘‘ کہیں بڑھ کر طاقت ور ہے۔ ہر پالیسی کا ہدف مڈل کلاس ہے۔ اضافہ یہ ہوا ہے کہ خاں صاحب نے غریب طبقے کو بھی امکانی مڈل کلاس سمجھ لیا ہے اور اسے ٹینٹوے سے پکڑ لیا ہے۔ مشن پورا ہونے میں بس ذرا ہی کسر باقی رہ گئی ہے کہ یہ مولانا صاحب دھرنا لے کے آ گئے۔