آوارہ گرد فریب سود و زیاں سے گزرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ،ان کے مشاہدے اور تجربے کو کسی کتابی علم سے چیلنج نہیں کیا جا سکتا، بیشمار آوارہ گرد عمر بھر میرے ساتھ رہے،کیونکہ میں نے بھی آوارہ گردی کے سوا کوئی منفعت بخش کام نہیں کیا، یہ آوارہ گردی کا اعجاز ہی تھا کہ حبیب جالب جیسے بڑے لوگ بھی میرے مہربان رہے جالب صاحب سفید کرتے پاجامے پر سلوکہ پہنتے تھے(جس کی بڑی بڑی جیبیں ہوتی ہیں، جسے عموماً دوکاندار اور بیوپاری نوٹ سنبھالنے کے لئے قمیض کے نیچے پہنتے ہیں،یہ سفید لباس انہیں کئی کئی مہینے میلا محسوس نہیں ہوتا تھا، رہی بات سلوکے کی تو جالب صاحب شاید سرمایہ داروں سے انتقام لینے کے لئے اسے کرتے کے اوپر پہنتے تھے۔ چاروں موسموں میں جالب صاحب کے پیروں میں پرانے سینڈل نظر آتے تھے، شاید اس لئے کہ پیدل چلتے چلتے کہیں نیند جائے تو اسے اتارنا آسان ہوتا ہے ، موسم زیادہ سرد ہوتا تو سر پر اجڑی ہوئی گرم ٹوپی اور جسم پر فل کوٹ پہن لیتے، جالب صاحب گرمیوں میں شاعر اور سردیوں میں جاسوس لگا کرتے تھے، میں چار پانچ سال کا تھا جب وہ لکشمی چوک میں نعیم ہاشمی صاحب کے پروڈکشن آفس میں کبھی کبھی دوپہر کو کھانا کھانے یا رات کو سونے کے لئے آ جایا کرتے تھے، ایک بار تو انکی بیگم انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچ گئی تھیں، وہ شاید یہ سمجھ کر وہاں آئی تھیں کہ یہ کوئی آوارہ گردوں کا ڈیرہ ہے، جب میرا آوارہ گردی کا دور شروع ہوا تو جالب صاحب روزانہ کہیں نہ کہیں ضرور دکھائی دئیے جاتے، وہ کئی بار مال روڈ پر سہروردی اور ملک معراج خالد کے ساتھ دکھائی دئیے، میاں محمود قصوری کے فین روڈ والے گھر اور ہائی کورٹ کے بوہڑ والے درخت کے نیچے بیٹھنا ان کے معمولات کا حصہ تھا، میں نے انہیں محترمہ فاطمہ جناح کے لارنس گارڈن والے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے اور ایوب خان کے خلاف نظم پڑھتے بھی دیکھا ۔جب میں نے روزنامہ آزاد جوائن کیا تو جالب صاحب سے باقاعدہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں، مظہر علی خان کا دفتر اور نثار عثمانی صاحب کا گھر بھی ساتھ ہی تھا، جالب بھی ان کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے،وہ مجھے بھتیجا کہہ کر مخاطب کرتے ، عمر کم ہونے کے باعث مجھے لاہور پریس کی رکنیت صحافی بن جانے کے دوسال بعد ملی تھی ،اور جب میں کلب کا ممبر بنا تو بابا ظہیر کاشمیری، ملک حامد سرفراز اور جالب صاحب کے ساتھ بھی تاش کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بابا جی ظہیر کاشمیری تو بہت ’’تھوڑ دلے‘‘ اور جنم جنم کے غریب تھے، وہ پانچ اور دس روپے سے زیادہ کبھی نہیں کھیلتے تھے،میرے جیسا کوئی ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کی کم بختی آجاتی اور اگر کوئی باباجی سے پانچ دس جیت جاتاتو چاہے دن چڑھ جائے وہ اسے اٹھنے نہیں دیتے تھے، جالب صاحب وہاں باقاعدہ تاش کھیلنے آتے تھے ، وہ بہت کم ہارتے ، ان کے پارٹنر عام طور پر آؤٹ سائیڈر ہوتے، جالب صاحب میرا بہت دھیان رکھتے تھے، عام طور پر دن چڑھے جب وہ جیت کر کلب سے اٹھتے تو مجھے اشارے سے ایک کونے میں لے جاتے اور پوچھتے… اوئے بھتیجے توں کنے ہاریا ایں‘’’میں جھوٹ بولتا‘‘ چار پانچ سو…وہ مجھے 200 پکڑاتے اور نکل جاتے، عمر کے آخری سالوں میں ان کی راتیں باری علیگ صاحب کے پرانی انارکلی والے چوبارے اور مصطفی قریشی کے گھر بھی بسر ہوئیں، باری علیگ کا یہ چوبارہ یوں تو ان کے بڑے بیٹے مسعود باری کے تصرف میں تھا،لیکن درحقیقت بے گھروں کی جنت ہوا کرتا تھا، مسعود باری کے چوبیس گھنٹے مہمانوں کو ویلکم اور خدا حافظ کہنے میں گزرتے تھے، ایک دور ایسا بھی آیا جب جالب صاحب نے وہاں روزانہ جانا شروع کر دیا، جالب صاحب جب پرانی انار کلی چوک میں پہنچتے تو وہاں پان شاپ پر ایک نوجوان انکے استقبال کے لئے موجود ہوتا ، وہ جالب صاحب کو پان اور سگریٹ کی ڈبیہ اپنی جیب سے خرید کر دیتا، ان کا بستہ ان کی بغل سے اپنے ہاتھ میں لیتا اور انہیں مسعود باری کے ڈیرے تک پہنچا کر آتا، یہ معمول ایک عرصے تک جاری رہا ، ہم سب اس کو جالب صاحب کا دیوانہ سمجھتے تھے، ایک دن کیا ہوا؟ جالب صاحب اپنا بستہ خود بغل میں دبائے وہاں پہنچے ، ان کا دیوانہ ان کے پیچھے تھا،اور وہ بہت غصے میں دکھائی دے رہا تھا اور وہ مسلسل جالب صاحب کو گھورے جا رہا تھا، جالب صاحب کے بھی ہوش اڑے ہوئے تھے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ، بڑی مشکل سے اس نوجوان کو بولنے پر آمادہ کیا گیا، باقی بات آپ اسی نوجوان کی زبانی سنئیے ۔آپ لوگوں نے مجھے ان پڑھ سمجھا ہوا تھا، میرے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا تھا،،، ہاں، میں ان پڑھ ہوں مگر میری چھوٹی باجی نے تو بی اے کیا ہوا ہے، کل رات میں نے گھر میں ذکر کر دیا کہ آجکل،، غالب صاحب،، کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں تو باجی نے بتایا کہ غالب کو مرے ہوئے تو سو سال ہو چکے ہیں ۔ انقلابی شاعری اور طبقاتی سماج کے خلاف باغیانہ کردار کے بعد جالب صاحب کی تیسری بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سب کچھ کرتے تھے مگر کبھی بھی کہیں بھی وہ ابنارمل یا مدہوش نہیں دیکھے گئے، جالب اپنے اشعار اور اپنے کلام کی تخلیق موسیقیت کے ساتھ کرتے تھے، ان کا جو کلام فلموں کا حصہ بنا اس کی دھنیں خود جالب صاحب ہی بنی ہوتی تھی، جالب صاحب اپنا کلام جس بہر جس رنگ میں بھی گاتے تھے، وہی موسیقار اور سنگر کاپی کر لیتے تھے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف ہم نے صف بندی کی تو جالب صاحب اگلی قطار میں کھڑے تھے، انہی دنوں انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاجی مظاہرے میں جالب صاحب کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی کی تصویر تو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، یہ تصویر ڈان کے مرحوم فوٹو گرافر اظہر جعفری نے اتاری تھی انیس سو اکانوے میں میرا تبادلہ لندن میں ہو گیا تو وہاں اطلاع ملی کہ جالب صاحب بہت بیمار ہو گئے ہیں، بیماری بڑھ گئی توہمارے میڈیا گروپ نے ان کے بیرون ملک علاج کی ذ مہ داری لے لی اور انہیں کرامویل اسپتال لندن میں داخل کرا دیا گیا، میری ڈیوٹی شام 7 بجے تک ہوتی تھی ، میں چھٹی کے بعد اکثر جالب صاحب کی عیادت کو پہنچ جاتا، ایک دن جالب صاحب نے کچھ پینے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے ان کے ڈاکٹر سے بات کی ، ڈاکٹر نے ایک ٹھنڈا ڈبہ پلانے کی اجازت دیدی۔ ایک روز کیا ہوا کہ دوپہر کے قریب کوئی پاکستانی صاحب مجھ سے ملنے آفس آئے، انہوں نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں ایک پاکستانی بنک کے سربراہ ہیں اور مجھ سے دریافت کرنے آئے ہیں کہ لندن میں کوئی پرابلم تو نہیں؟ اوراگر ان کے لئے کوئی خدمت ہو تو بتا سکتا ہوں برطانوی حکومت کی، میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ میں بھی برطانوی حکومت کی طے شدہ ویجز کے مطابق تنخواہ لے رہا ہوں، آپ کا میرے پاس آنے کا بہت بہت شکریہ، اسی دوران کرامویل اسپتال سے میرے لئے ارجنٹ کال آئی، کال کرنے والا کوئی گورا ڈاکٹر تھا، اس کا کہنا تھا کہ جالب صاحب کو ایک اٹینڈنٹ کی ضرورت ہے اور ان کا اصرار ہے کہ آپ انکے پاس آ جائیں، میںنے ’’اوکے‘‘ کہہ کر فون بند کیا تو ایک خیال میرے دماغ میں کوندا، کیوں نہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے مہمان کو جالب صاحب کے پاس بھجوا دوں؟ میں نے بنک کے اس سربراہ سے کہا،، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت پڑ ہی گئی ہے، وہ صاحب ہمہ تن گوش ہوئے، آپ مہربانی فرما کر دو تین گھنٹوں کیلئے کرامویل ہسپتال چلے جائیں اور جالب صاحب کو میرے وہاں آنے تک کمپنی دیں، وہ صاحب رضامندی ظاہر کر کے اسپتال چلے گئے، رات 7 بجے کاپی پریس میں بھجوانے کے بعد میں ٹیوب میں بیٹھ کر اسپتال پہنچ گیا ، جالب صاحب کا روم دوسرے فلور پر تھا، لفٹ جب اس فلور پر رکتی تو بائیں جانب یہ پورا کمرہ نظر آجاتا تھا ، میں نے لفٹ سے اترتے ہی دیکھا کہ میرا بھجوایا ہوا آدمی کرسی پر بیٹھا ہے، مجھے آتے دیکھ کر وہ جونہی کرسی سے اٹھا ، اس وقت تک میں کمرے میں داخل ہو چکا تھا، بستر پر پڑے جالب صاحب اس شخص کی جانب منہ کئے پوری طاقت سے چلا رہے تھے‘’’ اوئے (گالی دیتے ہوئے) تو بار بار کیوں کھڑا ہو جاتا ہے؟ آرام سے بیٹھ نہیں سکتا مجھے ڈسٹرب کر رہا ہے‘‘ اس کے بعد ایک گالی…اسکے بعد وہ آدمی مجھ سے علیک سلیک کے بغیر ہی کمرے سے باہر نکل گیا اور پھر کبھی مجھے نہ ملا۔