تذبذب کا ہم شکار ہیں اور یہی بنیادی مسئلہ ۔ یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا مہلت ہی نہ دی فیض ؔکبھی بخیہ گری نے خوف بھی ایک ہتھیار ہے لیکن ہر دوسرے ہتھیار کی طرح اس کو بھی برتنے کے تقاضے ہیں ۔ آدمی کبھی حیوان ہی تھا۔ آج بھی ہر آدمی کے اندر ایک جانور زندہ ہے تب طاقت استعمال کرنی چاہئیے ۔ چھ ہزار برس پرانے شہنشاہ ہمورابی کے پتھر کے جو کتبے ملے ہیں ، ان میں سے ایک پر جو قانون رقم ہے ، ایک آیت کا ہو بہو ترجمہ ہے : ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب ۔ اے وہ لوگو جو فہم و فراست رکھتے ہو ، جان لو کہ زندگی قصاص میں ہے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت۔ آدمی شکار کھیلتا تھا ۔ اسی پہ بسر کرتا ۔ خوف کے مارے لوگ غاروں سے نکلے اور بستیاں آباد کیں۔ تمدن وجود میں آیا ۔آدمی اناج کاشت کرنے لگا۔ بندوں کو بتا دیا گیا تھا کہ کرّہ ء خاک پہ ان کی مہلت مختصر ہے ۔ ان میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے ۔ وہ آزمائے جائیں گے اور یہ کہ اجتماعی ہی نہیں ، انفرادی زندگی کا انحصار بھی عدل پر ہے ۔ قیامِ عدل کے لیے ثالث درکار تھے، عدالت درکار تھی ۔ سب سے بڑھ کر فیصلہ صادر کرنے اور اسے نافذ کرنے والے حکمران ۔ حکومت کا ادارہ اس لیے وجود میں آیا کہ اپنے خطے اور قبیلے کا دفاع کرے۔ ایسے ادارے اور نظام تشکیل دے ، باہمی تنازعے جس میں طے کیے جا سکیں ۔ طاقتور کمزور کو دبا نہ سکے ۔ وحشت کا شکار ہونے والے من مانی کا ارتکاب نہ کر سکیں ۔ ریاست مقدس ہے ، بہت مقدس ۔ اس لیے کہ وہ جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرتی ہے ۔ خوف سے نجات اور آزادی کے بغیر انسانی صلاحیت پنپ سکتی ۔ آزادی مگر ایک نظم یعنی ڈسپلن کا مطالبہ بھی کرتی ہے ۔ سرکارﷺ نے فرمایا : چھوٹے سر والا ایک حبشی بھی تمہارا حاکم بنا دیا جائے تو اس کی اطاعت کرو ۔ فرد نہیں ، یہ قانون کی پیروی ہے ۔ حاکم کے بارے میں ورنہ یہ کہا گیا کہ اس کے سامنے کلمہ ء حق کہنا جہاد ہے ۔ فرمان یہ بھی ہے کہ سلطان کے جائز کام کی بھی تعریف نہ کی جائے ۔ اس لیے کہ فطری طور پر بادشاہوں میں من مانی کا رجحان ہوتاہے ۔ غلبے کی قدیم انسانی جبلت ، خدائی کا فتور ۔ امام ابو حنیفہؒ سمیت ، جنہیں امامِ اعظم کہا جاتاہے ۔جلیل القدر فقہا نے خروج پہ سخت شرطیں عائد کی ہیں ۔ خروج یعنی حاکمِ وقت کے خلاف بغاوت ۔ اس لیے کہ انسان محفوظ و مامون رہیں ۔ ابو مسلم خراسانی نے عباسیوں کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کیا تو امام نے کہا تھا ’’وہ شہید ہو گیامگر اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا ۔ ایک طویل قامت، وجیہہ و شکیل آدمی ، خلق جس کی پیروی پر آمادہ تھی۔ شجاع مگر حکمت و تدبیر سے نا آشنا‘‘کرشتماتی عمران خان کی طرح۔ طاقت گمراہ کرتی ہے اور زیادہ طاقت زیادہ گمراہ ۔ قانون کا احترام جس سماج میں نہ ہو ، پارٹیاں اور تنظیمیں نہیں ، جتھے وجود پاتے ہیں ۔ جتھا انصاف نہیں ، غلبے کا مطالبہ کرتا ہے ۔ 1956ء میں ، جب پہلے انتخابی معرکے میں جماعتِ اسلامی ناکام رہی تھی ، مفسرِ قرآن امین احسن اصلاحی نے سید ابو الاعلیٰ مودودی سے کہا تھا :جتھہ داری انصاف کی قاتل ہوتی ہے ۔ ایک گروہ وجود میں آجائے ۔ تنظیم کے بل پر طاقتور ہو ۔تو دلوں اور دماغوں سے انصاف رخصت ہو جاتا ہے ۔ بالکل برعکس سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہا تھا ’’قرآن و سنت کا علم لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جائو ‘‘ اسلامی جمعیت طلبہ کو جن اداروں میںاقتدار حاصل ہوا ، عدل و رواداری نہیں ، نوجوان تشدد کی طرف مائل ہوئے۔ اقتدار کی نفسیات میں ارتکاز ہوتاہے ۔ طاقت چند ہاتھوں میں سمٹنا چاہتی ہے اور فاشزم کے اسلوب میں ڈھل جاتی ہے ۔ اقبالؔ نے کہا تھا : جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ۔ اردو کے بے مثل ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اس پر یہ سوال کیا تھا کہ مذہبی طبقہ ہی اگر چنگیزیت اختیار کر لے ؟ فاطمی سلطنت اس کی ایک مثال تھی ، جو بالاخر صلاح الدین ایوبی کے سامنے سرنگوں ہوئی ، جب صلیبیوں نے یلغار کی ۔ ایران کا اسمٰعیل صفوی ، جس نے ظہیر الدین بابر سے تاشقند چھین لینے والے ازبک فاتح شیبانی خان کو پامال کر ڈالا ۔ تب سے بلکہ قاچار شہنشاہوں کے عہد سے ایران ملّا کا شکار ہے ۔ کبھی رضا شاہ پہلوی ایسی سفاک بادشاہت اور کبھی نری ملّائیت۔ افغانستان کے طالبان اس کی ایک اور مثال ہیں ۔ پراپیگنڈے کے بل پرانہیں دنیا کے بہترین حکمران بنا کر پیش کیا گیا ۔ سادہ ، جفاکش اور عادل مگر مخالفین پر ظلم کے پہاڑ انہوں نے توڑے ۔ انہی سے شہہ پا کر اور انہی کی پیروی میں پاکستانی طالبان ابھرے ۔ 70ہزار معصوم پاکستانی شہریوں کو جنہوں نے شہید کر ڈالا ۔ امام بارگاہیں ان کا ہدف تھیں ، مارکیٹیں ، مزار ، حتیٰ کہ مینا بازار اور عیسائیوں کا گرجا گھر ۔ انہی کا اندازِ فکر رکھنے والے ’’مجاہدین ‘‘ نے لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ پہ حملہ کیا ۔ جو مارے گئے ، وہ مارے گئے ۔ جو زخمی ہوئے ، نہر کنارے جناح ہسپتال میں ان پر گولیاں برسائی گئیں ۔ اقبالؔ نے کہا تھا : نشہ ء قوت ہے خطرناک کسے خبر تھی کہ لے کرچراغِ مصطفوی جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی پانچ برس ہوتے ہیں ، ہزاروں شہید وں کے باپ سیّد علی گیلانی نے کہا تھا ’’ابھی ہم اس اخلاقی معیار کو نہیں پہنچے کہ خدا ہماری فریاد سنے‘‘ پچھلے ایک عشرے میں پاکستان آنے والے کئی کشمیری لیڈر عصرِ رواں کے عارف کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ان مواقع پر یہ ناچیز موجود تھا ۔ ان میں سے ہر ایک سے درویش نے یہ کہا :جہاد خالص اللہ کے لیے ہوتا ہے اور اس کی شرائط ہیں ۔ قوم پرستی ایک چیز ہے ، آزادی کی آرزو ایک چیزہے اور جہاد فی سبیل اللہ بالکل دوسری ۔ تلوار رکھ دو، سیاسی تحریک چلائو، سیاسی تحریک ۔ سیدھی اور صاف بات کرو۔ قوم پرستی اور آزادی کی ۔ انسانی حقوق اور استعمار سے نجات کی ۔ جہاد کی شرائط سخت ہیں ۔ بدر کے دن بلندی پر کھڑے بلالؓ نے جن کا اعلان کیا تھا : فصل جلائی نہیں جائے گی۔ درخت کاٹا نہیں جائے گا ۔ کارخانے میں کام کرتے مزدور اور کھیت میں ہل چلاتے کسان کو امان ہے ۔ عورتوں اوربچوں پہ ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا ۔ بے چارے پاکستانی وکیل ۔ وکلا تحریک میں اپنی طاقت انہوں نے دریافت کر لی ۔ وہ ایک جتھہ بن گئے ۔ حصولِ انصاف کے عمل میں وہ کبھی مددگار تھے ہی نہیں ۔ اب ایک لشکر بنے اور اقتدار کی تمنا پالی ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا ، جسٹس منصور علی شاہ ایسے نفیس اور معتدل مزاج منصف کی توہین کی ۔ گالیاں بکیں اور پتھر برسائے ۔ طاقت ایک پاگل کر دینے والی چیز ہے ۔ گروہ بندی کو انصاف سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ ریاست کمزور ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ ہو یا سول حکومت ۔ صوبائی حکومت ہو یا مرکزی ، کوئی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔ نہیں رہ سکتا ، گلا سڑا یہ نظام باقی نہیں رہ سکتا ۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے۔بار بار زخم لگتے اور خون بہتا ہے ۔ کبھی ایک اور کبھی دوسرے گروہ پہ وحشت سوار ہو جاتی ہے ۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر اندمال ممکن نہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ تذبذب کا ہم شکار ہیں اور یہی بنیادی مسئلہ ہے ۔ یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا مہلت ہی نہ دی فیض ؔکبھی بخیہ گری نے