اچھی بات ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنے اعلان کے مطابق مستحقین کی مدد شروع کر دی ہے۔ فی الوقت یہ کام محدود نظر آ رہا ہے۔ شاید آنے والے دنوں میں اس کا دائرہ وسیع ہو جائے۔ جماعت اسلامی پہلے ہی یہ کام کر رہی ہے اور بہت بڑے پیمانے پر۔ سندھ حکومت بھی متاثرین کی مدد کر رہی ہے۔ ایدھی ٹرسٹ والے بھی سرگرم ہیں اور کوئی ادارہ یا حکومت نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب حکومت بھی سرگرم ہے لیکن تصویریں کھنچوانے اور کورونا کا فضائی جائزہ لینے میں۔ کورونا ہوائی مرض ہے۔ہوائی جائزہ لینا بھی بنتا ہے۔ سیلاب آیا تو آبدوز کا جائزہ لے گی۔ وفاقی حکومت بھی متاثرین کی مدد کے لئے بے چین ہے لیکن کچھ دیگر امور ضروریہ حل کرنے میں پھنسی ہوئی ہے۔ ادھر فیصل واوڈا جعلی ڈگری اور دہری شہریت کے الزامات کے بعد رضا کارانہ طور پر لی گئی روپوشی کے بعد منظر عام پر آ گئے ہیں اور پریس کانفرنس کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داریوں میں ایک نئی ذمہ داری کا اضافہ ہو گیا ہے یعنی سندھ حکومت سے نمٹنے کا۔ کرونا سے انسان دکھی ہے لیکن اس سے زیادہ جانور دکھی ہیں۔ دو تین دن پہلے خبر آئی کہ لاک ڈائون کی وجہ سے وہ جانور دکانوں ہی میں بند پڑے پڑے بھوک پیاس سے مر گئے جو فروخت کے لئے رکھے گئے تھے۔ لاہور میں ایسی بہت سی دکانیں ہیں جہاں پالتو جانور‘ بالخصوص کتے بلیاں فروخت کئے جاتے ہیں۔ شرعی لحاظ سے اس طرح کا دھندا جرم ہے۔ قانون کے تحت جائز۔بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرنے والے ان جانوروں کی تعداد خبر کے مطابق سینکڑوں میں ہے لیکن دراصل زیادہ یہ جانور کئی دن تڑپ تڑپ کے مرے۔ جو ناقابل بیان اذیت ان جانوروں نے اٹھائی‘ یہ دکاندار اس کے بھگتان بھگت کر رہیں گے۔ ادھر پولٹری والوں نے ہزاروں لاکھوں چوزے کھیت کم پڑنے کے بعد زندہ ہی دفن کر دیے۔ یعنی کورونا کے ساتھ’’انسانیت‘‘ کا رقص بھی عروج پر ہے ایک خاتون نادیہ فاروق نے ویڈیو جاری کی ہے کہ سڑکوں کے کنارے بے شمار کتے بھوک سے نڈھال‘ ادھ موئے پڑے ہوئے ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے انہیں کھانے کو کچھ نہیں مل رہا۔ وہ بھوکوں مر رہے ہیں۔ خاتون نے اپیل کی ہے کہ لوگ انہیں خوراک دیں۔ بظاہر اپیل رائیگاں جاتی نظر آتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بھوکے انسانوں کو کھانا کھلانے والے ہی بہت کم ہیں، جانوروں کو کون کھلائے گا۔ایسی ہی ایک اپیل فتوے کی شکل میں پنجاب حکومت کے علماء بورڈ کے ایک عہدیدار مفتی ضیاء الحق نقشبندی نے جاری کی ہے۔ عوام سے اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے محکمہ تحفظ جنگلی حیات سے بھی کہا ہے کہ وہ بھوکے جانوروں کو کھانا دے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات اسلام آباد کے چڑیا گھر میں محصور اور بیمار‘ قید تنہائی کاٹنے والے بوڑھے ہاتھی ’’کامران‘‘ کی مدد کے لئے کچھ نہیں کر سکا تو یہاں کیا کرے گا۔ اس ہاتھی کو پہنچائی جانے والی اذیت ختم کرنے کے مطالبے دنیا بھر سے ہوئے ہیں اور سب بے اثر۔ ویسے بھی گلی محلوں میں بھوک سے مرنے والے جانوروں کی دیکھ بھال اس محکمہ کے دائرے میں نہیں آتی۔ یہ کام حکومت کا ہے۔ وہی حکومت جو ’’انسانی تماشا‘‘ مزے مزے سے دیکھ رہی ہے۔ بہرحال ان کی اپیل قابل تعریف ہے لیکن اس کی کوئی عوامی تشہیر نہیں کی گئی۔ عوام تک پہنچے تو کچھ اثر ہونے کی توقع بھی ہو۔ دیگر علماء کرام بھی خاموش ہیں‘ ان درباری مبلغ اعظم کا تو پوچھنا ہی کیا جو غریب علاقوں میں کبھی کبھار جاتے ہیں تو دوزخ کی ’’بشارت‘‘ دے کر چلے آتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ عالمی شہرت یافتہ پرائٹولوجسٹ جین گوڈیل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جانوروں سے بدسلوکی کورونا کا سبب بنی۔ جانوروں سے بدسلوکی بہت نرم لفظ ہے۔ ان ناقابل تصورمظا لم ڈھانے میں چین ساری دنیا میں سب سے آگے ہے اور کورونا اسی چین کا تحفہ ہے۔ کل ہی کسی نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا وائرس کا نام بدل کر چائنا وائرس رکھا جائے۔ جملہ زرد خام قومیں اس کام میں چین کے ساتھ برابر کی شریک ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہسپانوی نژاد اقوام ہیں۔ سپین کے باہر ان اقوام کا وسطی اور جنوبی امریکہ کے تمام ممالک میں ماسوائے برازیل کے‘ ہسپانوی قوم کا قبضہ ہے‘ برازیل پر ہسپانویوں کے چچا زاد پرتگالیوں کا قبضہ ہے۔ تیسرے نمبر پر افریقی قومیں ہیں۔ لیکن بہت پیچھے امریکی اور یورپی بھی نہیں۔ دنیا بھر میں حیوانات پر تین طرح کے مظالم ہوتے ہیں۔ ایک غیر منظم یعنی انفرادی واقعات دوسرے نیم منظم جیسے گھوڑوں اور گدھوں اور دیگر جانوروں سے کام لینا‘ تیسرے منظم ادارے جن کی کارپوریٹ قوت بے اندازہ ہے۔ یہ ادارے ہر روز اربوں جانور ہلاک کرتے ہیں۔ ان کی فہرست کچھ یوں ہے ڈیری کی صنعت (کروڑوں نر بچے پیدا ہونے کے بعد سے چند دن کے اندر اندر مار دیئے جاتے ہیں) مرغی کی صنعت ‘ انڈے کی صنعت‘ مچھلی کی صنعت ریپٹائلز کی صنعت (مگرمچھ ‘ کچھوے گولی مار کر ہلاک نہیں کئے جاتے کہ کھال خراب ہو جائے گی‘ زندہ کی کھال اتاری جاتی ہے‘ اس سے بیگ بنتے ہیں۔ کتے کی صنعتیں کھانے کے لئے اور کھال اتارنے کے لئے بھی۔ کتے کی کھال کے جوتے سب سے مہنگے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑی دکانوں پر ان کی بڑی مانگ ہے۔(دکاندار بتاتے نہیں کہ یہ کتے کی کھال سے بنے ہیں) فر(fur) کی صنعت‘ بلی‘ پشم دار کتے‘ شیر ‘ چیتے‘ راکوں‘ لومڑی‘ سموردے نیولے وغیرہ‘ درجنوں قسم کے کروڑوں جانوروں کی ہر مہینے کھال اتاری جاتی ہے۔ اون کی صنعت (خرگوش بال نوچ نوچ کر مار دیے جاتے ہیں) کافی کی صنعت میںبلیاں قتل کی جاتی ہیں۔ کاسمیٹکس کی صنعت ۔ لپ سٹک‘ غازے وغیرہ کے لئے اربوں جانوروں ہلاک کئے جاتے ہیں۔ گوشت کی عمومی صنعت گائے بھینس بکری کتے وغیرہ اور اس سے بڑھ کر سوّر مارے جاتے ہیں۔ میڈیکل صنعت کروڑوں جانور ہر سال سائنسی تجربات میں سال سال بھر اذیتیں دے دے کر مار دیے جاتے ہیں۔ انسان نے نوع حیوانی کیلئے دنیا کو دوزخ بنا دیا ہے۔