نائنٹی ٹو اخبار سے وابستہ صحافی اور خوبصورت لب و لہجے کے شاعر سجاد بلوچ کا کیا اچھا شعر ہے ؎ افق پہ چاند محرم کا پھر طلوع ہوا اور اک لکیر پڑی دل کے آبگینے پہ دل کے آبگینے پر پڑنے والی درد کی وہ لکیر یوم عاشور تک ایک گھائو میں بدل جاتی ہے۔ اگرچہ ہم اپنے روز مرہ کے معمول کے کام سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ مگر دل کی دنیا میں غم حسینؓ کی حکمرانی رہتی ہے۔ پھر غم حسینؓ کی یہ دلگیر فضا پورے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ نذر نیاز‘ پانی اور دودھ کی سبیلیں‘ مجالس میں تذکرہ حسین۔ اہل بیت کی قربانیوں کی داستانیں‘ نوحوں‘ مرثیوں کی گونج دس محرم۔آتے آتے درد کی صدا اپنے عروج پر پہنچتی ہے۔ نبی پاکﷺ کے نواسے اور فاطمہؓ کے لال کی عظیم شہادت کی یہ دلگداز داستان ایک بازگشت بن کر چاروں اور سنائی دیتی ہے۔ با صفا اور باکردار بہتر‘ غریب والوطنی ‘ بے سروسامان۔ عظیم قربانی وقت کے قرطاس پر آج بھی جس کے چراغ جلتے ہیں۔ ایک طرف خدا اور خدا کے رسول کے دین کو بچانے والے اور ایک طرف ہم۔ بے عمل مسلمان۔ گفتار کے غازی اور عمل کا کاسۂ یکسر خالی۔ ایسے میں میری کیا اوقات کہ شہیدان کربلا پر چند لفظ بھی لکھ سکوں۔ ہاں دل درد سے پر ہے اور آنکھ میں غم حسین کا نم باقی ہے۔ میری اداسی کا مرہم یہی ہے کہ ذکر حسینؓ ہو۔ اور آنکھ کے کناروں پر اترنے والی نمی میرے اندر کی دنیا کی گواہی دیتی رہے۔ سانحہ کربلا‘ اہل بیت کی قربانیاں‘ شہزادی زینبؓ کے حوصلے اور عزم کی کہانی سید الشہدا حضرت امام عالی مقام کا تذکرہ۔ اگر شعر میں ہو تو میرے دل کو ڈھارس ملتی ہے۔ افتخار عارف کا کچھ عمدہ کلام آپ بھی پڑھیے: شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؓ کا ہے زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؓ کا ہے فرات وقت رواں دیکھ سوئے مقتل دیکھ جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؓ کا ہے واقعہ کربلا کے اس سارے پس ’’منظر شہزادی زینبؓ ایک جانب ناقابل غموں اور مظلومیت کی تصویر ہیں تو دوسری طرف صبر‘ حوصلے‘ جرأت اور شجاعت کا ناقابل فراموش‘ بے مثال استعارہ افتخار عارف کا قلم کس طرح شہزادی زینب کو نذرانہ پیش کرتا ہے۔ آئیے ہم بھی اپنے آنسو اور اپنی عقیدتیں اس میں شامل کر لیں ۔ نظم کا عنوان ہے’’کربلا گواہی دے‘‘ نظم طویل ہے دو منتخب بند پیش ہیں: پھر وہ شام بھی آئی جب بہن اکیلی تھی اک سفر ہوا انجام ریگ گرم مقتل پر چند بے کفن لاشے بھائیوں بھتیجوں کے گودیوں کے پالوں کے کچھ جلے ہوئے خیمے کچھ ڈرے ہوئے بچے جن کا آسرا زینبؓ جن کا حوصلہ زینبؓ کربلا گواہی دے مشہد مقدس سے اک نیا سفر آغاز جس کی ایک منزل شام شام شامِ مظلومی اور وہ خطبۂ زینب پھر تو برسرِ دربار پوچھنے لگی دنیا ظلم کی کہانی میں داستان سرائوں کے حاشیے کہاں تک ہیں خیر کے تحفظ پر گھر لٹانے والوں کے حوصلے کہاں تک ہیں وقت نے گواہی دی جبر کے مقابل میں صبر کا سبق زینبؓ مصحفِ شہادت کا آخری ورق زینبؓ حضرت زینبؓ کو سلام عقیدت شاعر اور کالم نگار اختر شمار کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں: سفر کتھا ہے کہ زنجیر کی کہانی ہے سنو کہ زینب دلگیر کی کہانی ہے درود پاک سے یہ جان و دل معطر ہیں لبوں پر چادرِ تطہیر کی کہانی ہے واقعہ کربلا انسانی تاریخ میں سب سے بڑا سانحہ ہے۔ دنیا کا کوئی اور مذہب اور تہذیب اس طرح کے کسی واقعے کو پیش کرنے سے قاصر ہے۔ غیر مسلم شاعروں نے بھی امام حسینؓ کو اپنے الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ہندو شاعر راجندر کمار نے کیا خوبصورت کہا کہ: اس قدر رویا میں سن کر داستان کربلا میں تو ہندو ہی رہا‘ آنکھیں حسینی ہو گئیں واقعہ کربلا کے ایک زاویے‘ ایک ایک رنگ کو جس انداز میں میر انیس نے اپنے اشعار میں سمویا اس کی تو خیر مثال کہیں نہیں ملتی۔ صدیاں گزر گئیں ہیں مگر آج بھی حرف و لفظ کے شعری ہنر سے وابستہ لوگ امام حسینؓ اور اہل بیت کے حضور اشعار کی صورت نذرانہ عقیدت پیش کرنا اپنے لیے عبادت اور سعادت سمجھتے ہیں۔ شہزاد منیر خوب صورت لب و لہجے کے شاعر ہیں کمال شعر کہتے ہیں ان کی ایک نظم ’’شکست کس کی‘‘۔؟کا آخری بند ہے: ’’یہ کیسا منظر ہے مشک بردار بازئوں سے کسی نے تلوار کاٹ دی ہے گلوئے اصغر نے نوک ناوک کو مات دی ہے عجیب منظر ہے ایک شہہ رگ نے دھار خجر کی کند کر دی ایک سر وہ جو اپنے تن سے جدا ہوا ہے مرا نہیں ہے مقابلے میں وہ کتنے سر تھے جو زندہ بچنے پہ ناز کرتے تھے اب شہیدوں کی زندگی سے شکست کھا کر مرے پڑے ہیں اور اب دو شعر جو برسوں سے یادداشت کا حصہ ہیں اور محرم کا چاند طلوع ہوتے ہی ذہن و دل میں گونجتے رہتے ہیں: غریب و سادہ رنگین ہے داستان حرم نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیل (اقبالؒ) قتلِ حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والی شاعرہ پروین فنا سعید مرحومہ کا یہ شعر پڑھیے کیسا دلگداز ہے: اک گھرانے کے مہ و انجم کی کہکشاں کیسے گہن سے گزری مقبول ترین منقبت میں تو پنجتن کا غلام ہوں۔ میری پسندیدہ ہے۔ جب بھی سنو ایک خاص کیفیت دل پر طاری ہو جاتی ہے۔ یوسف قمر کے قلم کو رب نے کیا اعلیٰ کلام عطا کیا۔ کم لوگ ہی ان کے نام سے واقف ہوں گے۔ اس منقبت کا ایک بند کالم کے آخر میں: ہوا کیسے تن سے وہ سر جدا جہاں عشق ہے وہیں کربلا میری بات ان ہی کی بات ہے میرے سامنے وہی ذات ہے وہی جن کو شیر خدا کہیں جنہیں بابِأ صلی اعلیٰ کہیں وہی جن کو آلِ نبیؐ کہیں وہی جن کو ذات علیؓ کہیں وہی پختہ ہیں میں تو خام ہوں میں تو پنجتن کا غلام ہوں میں غلام ابنِ غلام ہوں