وہ سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں میں ہیں۔ سرمئی رنگ کے اور سفید! کچھ سنہری! ابراہیم خلیل روڈ پر آپ جا رہے ہوں تو سامنے دائیں طرف کلاک ٹاور ہے۔ بالکل سامنے حرم کی سیڑھیاں ہیں۔ کلاک ٹاور سے پہلے، دائیں طرف بڑا سا میدان ہے۔یہیں پر یہ سینکڑوں، ہزاروں کبوتر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ انہیں کھلانے کے لیے لوگ باگ قیمتاً گندم کے اور باجرے کے اور چاول کے دانے خریدتے اور ان پر نچھاور کرتے ہیں۔ ایک ڈار اترتی ہے ایک جاتی ہے۔ کچھ کبوتر اڑتے ہیں اور زمین سے چند فٹ ہی اوپر رہتے ہوئے کچھ گز دُور پھر جا بیٹھتے ہیں۔ انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ لاکھوں لوگ جو بغلی شاہراہ سے گزر کر حرم کو جا رہے ہیں اور واپس آ رہے ہیں، ان کبوتروں کو غور سے دیکھتے ہیں۔ کچھ شوق سے کچھ حسرت سے، کچھ حیرت سے، انسان ساتھ سے گزر جاتے ہیں یہ کبوتر ذرا بھر نہیں ڈرتے۔ یہ کبوترانِ حرم ہیں۔ عربی، فارسی، ترکی اور اردو کا ادب ان کبوتروں کے ذکر سے اٹا پڑا ہے۔ حرم کا نواح ان کی جائے پناہ ہے۔ مگر حرم صرف ان کبوتروں کی جائے پناہ نہیں، کسی شاہراہ پر صرف ایک گھنٹہ کھڑے ہو جائیں، ہر پانچ منٹ کے بعد ایک جہازی سائز کی بس رُکے گی۔ یہ جدہ سے یا مدینۃ النبیؐ سے یا ریاض سے یا کسی اور شہر سے آئی ہو گی۔ جوق در جوق انسان نکلیں گے۔ گروہوں کی صورت، مکہ کی شاہراہوں کے دونوں کناروں پر بکھرے ہوٹل ان لاکھوں کروڑوں انسانوں کو اپنے اندر جذب کرتے جائیں گے۔ پھر حرم کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہو گی۔ اب انسانوں کا سمندر ان ہوٹلوں سے، اقامت گاہوں سے، پلازوں سے، گھروںسے، کمروں سے نکلے گا۔ شاہراہیں اس سمندر میں ڈوب جائیں گی۔ ہر چہار طرف سے لوگ حرم کی طرف بڑھیں گے۔ عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے جوان، احرام کے دو کپڑوں میں ملبوس، کچھ اپنے اپنے لباس میں، انڈونیشیا کے اور ملائیشیا کے اور وسط ایشیا کے اور بنگلہ دیش کے اور بھارت کے اور پاکستان کے اور ترکی کے اور ایران کے، عرب بھی، افریقی بھی، بربربھی، مصری بھی۔ ویڈیو پر غیر مسلم جب یہ منظر دیکھتے ہیں کہ تکبیر کے ساتھ ہی لاکھوں انسان، کسی پولیس کسی فوج کسی طاقت کسی دھمکی کسی لالچ کے بغیر منظم صفوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ اکبر کی آواز کے ساتھ سر جھکا لیتے ہیں تو یہ غیر مسلم حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح لاکھوں کا مجمع خاموش بے حس و حرکت، کھڑا ہو گیا۔ روئے زمین پر ایسا منظر کہیں نہیں۔ چند مربع فٹ کے ایک بند، سیاہ پوش کمرے کے گرد لوگ طواف کر رہے ہیں۔ رات بھر، دن بھر، کڑکتی دھوپ کی تیز نوکیلی کرنیں جسموں میں نیزوں کی طرح اترتی ہیں، طواف جاری رہتا ہے۔ ہوا تیز چلے، آندھی آئے، موسلادھار بارش برسے، موسم آئیں موسم جائیں طواف جاری رہتا ہے۔ صدیوں سے جاری ہے۔ کیسا اتفاق ہے کہ گنتی کے جن چند مواقع پر تاریخ نے طواف کی سرگرمی کو معطل دیکھا، یہ مواقع خود مسلمانوں نے پیدا کیے۔ کچھ بدبخت حکمرانوں نے اور کچھ بدقسمت انتہا پسندوں نے مگر کسی غیر مسلم کو آج تک یہ ہمت نہیں ہوئی کہ طواف میں خلل ڈالتا یا حرم کو میدانِ جنگ بناتا۔ یہاں رات دن کی طرح ہے اور دن رات کے مانند، مال اسباب کی دکانیں ہیں یا ریستوران، چوبیس گھنٹے کھلے ہیں۔ اس لیے کہ جس طرح روئے زمین پر ہر وقت کسی نے کسی ملک میں اذان ہو رہی ہوتی ہے اسی طرح ہر وقت ٹھاٹیں مارتا سمندر حرم کی طرف رواں ہے یا حرم سے نکل رہا ہے۔ عشا پڑھ کر لوٹتے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں۔ کچھ خریداری ہوتی ہے اتنے میں تہجد کا وقت ہو جاتا ہے۔ اب شاہراہیں پھر انسانوں کے سمندر میں غرق ہو جاتی ہیں۔ جو سو رہے ہیں وہ فجر کی اذان سن کر نکل آئیں گے۔ کوئی ایسا وقت نہیں جب زمزم کے گرد پیاسوں کا ہجوم نہ ہو۔ جب صفا کی پہاڑی سے اتر کر خلقِ خدا مروہ کی اونچائی کی طرف نہ جا رہی ہو، جب مروہ سے صفا کی طرف نہ پلٹ رہی ہو۔ جب سبز روشنیوں کے نیچے مرد دوڑ نہ رہے ہوں۔ بے حد و بے کنار سمندر، انسان ہی انسان، بیسیوں دروازوں سے داخل ہوتے ہیں۔ کئی منزلیں اور ہر منزل پر انسانوں کا سمندر موجزن۔ بے آب و گیاہ پہاڑیوں اور لق ودق گھاٹیوں کے درمیان کیا رزق کی فراوانی ہے جو ربِ کعبہ برسا رہا ہے، مسلسل برسا رہا ہے۔ زمین پر اگنے والا کون سا پھل ہے جو اس شہر میں میسر نہیں۔ کون سا غلہ ہے جو دستیاب نہیں، آج صفا اور مروہ گراں بہا سنگِ مرمر سے ڈھکی ہیں۔ بی بی ہاجرہ کو کیا معلوم تھا کہ جن کھردری، نوکیلے پتھروں سے اٹی پہاڑیوں کے درمیان وہ بے تابانہ دوڑ رہی ہیں، یہ پہاڑیاں خوبصورت، ملائم چکنے مرمر سے ڈھانپ دی جائیں گی اور قیامت تک لوگ ان دو پہاڑیوں کے درمیان چلتے رہیں گے، دوڑتے رہیں گے۔ ایک یونین یورپ میں ہے۔ یورپین یونین کے لوگ یونین کے کسی بھی ملک میں آ جا سکتے ہیں، رہ سکتے ہیں۔ ملازمت کر سکتے ہیں۔ ایک یونین مکہ میں ہے۔ یہ عالمِ اسلام کی یونین ہے۔ یہ یونین مسلمان حکمرانوں کی مرہونِ احسان نہیں۔ یہ یونین کعبہ کی دین ہے۔ یہ یونین محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاکِ پا کے طفیل ہے۔ مکہ میں عالم اسلام کے ہر حصے کے لوگ رزق کما رہے ہیں۔ یہ دیکھیے، اس ہوٹل کا منیجر بنگالی ہے۔ یہ ڈھاکہ سے آیا ہے۔ اس سیلز مین سے ملیے، یہ کلکتہ کا بنگالی ہے، یہ دکاندار برما کا روہنگیا مسلمان ہے۔ یہ کون ہے؟ یہ سوڈانی ہے۔ یہ کون ہے یہ بھارت کے صوبے کیرالہ سے آیا ہوا ہے۔ یہ مراکشی ہے۔ وہ مصری ہے، یہ تیونس کا ہے، وہ خرطوم سے آ کر ملازمت کر رہا ہے، یہ سینی گال کا ہے، وہ ترک ہے، یہ انڈونیشیا سے ہے اور سالہا سال سے یہیں ہے۔ اس ’’وادٍ غیر ذی زرعٍ‘‘ میں جس رزق کی فراوانی کے لیے ابراہیم خلیل اللہ نے دعا کی تھی، ساری دنیا سے آئے ہوئے یہ لوگ اس رزق سے اپنا حصہ پا رہے ہیں اور وافر پا رہے ہیں۔ اس مسلم یونین کے لیے کوئی معاہدہ ہوا ہے نہ اس میں کسی سیاسی طاقت کا کمال ہے۔ اس یونین کے لیے دعا ایک جلیل القدر پیغمبر نے مانگی تھی اور اس کی عملی بنیاد پیغمبر آخرالزمان نے خود رکھی! یہاں قیامت تک دنیا بھر سے لوگ آتے رہیں گے۔ رزق وسیع اور کشادہ رہے گا۔ تجارت تابندہ اور فروزاں رہے گی۔ پہلے اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں کے قافلے آتے تھے۔ پھر بحری جہاز۔ اب منٹ منٹ بعد پروازیں اترتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہوٹل کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ تعمیرات الگ ہو رہی ہیں، ہوتی رہیں گی۔ حرم کے ایک گوشے میں ایک بڑھیا بیٹھی دعا مانگتے ہوئے رو رہی ہے۔ کیا خبر کہاں سے آئی ہے۔ وہ سامنے ایک اپاہج، پائوں گھسیٹتا، آہستہ آہستہ حرم کی طرف جا رہا ہے۔ ملتزم سے لوگ چمٹے ہوئے ہیں، مقام ابراہیم کی بلائیں لے رہے ہیں۔ دونوں ہاتھ حجرِ اسود کی طرف کر کے ’’وللہ الحمد‘‘ پکارتے ہیں۔ پھر ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہیں۔ یہ حطیم ہے۔ وہ رکنِ یمانی ہے۔ ایک دنیا ہے جو مطاف کے کناروں پر بیٹھی کعبہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دیکھے جا رہی ہے۔ حرم میں بہترین عبادت نوافل نہیں، طواف ہے۔ یا بیٹھ کر کعبہ کو دیکھتے رہنا۔ بادشاہیاں آئیں اور گئیں، ہر حکمران نے حرمِ کعبہ میں توسیع کی، پہلے سے زیادہ دیدہ زیب کیا۔ پہلے سے زیادہ آرام دہ بنایا۔ پھر چلا گیا۔ جو اس کی جگہ آیا اس نے کام وہیں سے شروع کیا جہاں چھوٹا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کس کو خبر ہے سو سال بعد کیا سہولتیں ہوں گی۔ مگر سو سال گزریں یا ہزار! مرکز دنیا کا مکہ ہی رہے گا۔