پرانے زمانے کی بات ہے‘ کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ بہت شان و شوکت والا بادشاہ تھا۔ ملک اگرچہ غریب تھا لیکن بادشاہ کی شان و شوکت دیکھ کر دوسرے بادشاہ رشک کرتے تھے۔ یہ بادشاہ جب کبھی کہیں جانے کو نکلتا تو اس کا لائو لشکر اور پروٹوکول دیکھ کر خلقت دنگ رہ جاتی تھی۔ وہ سارے بادشاہوں سے زیادہ پروٹوکول لیتا تھا۔ اس کا بہت بڑا شاہی محل تھا۔ محل میں یہاں سے وہاں تک جانے اور وہاں سے یہاں آنے تک بادشاہ بگھی استعمال کرتا تھا۔ خدام ادب اس کا پائوں زمین پر پڑنے ہی نہیں دیتے تھے۔ بادشاہ خوش خوراک تھا۔ دن بھر دیسی مرغیاں‘ ولایتی ٹرکیاں(Turkey) بٹیر‘ ہرن اور نہ جانے کیا کیا کھاتا رہتا تھا۔ ادھر کھا کر فارغ ہوا ادھر پھر سے بھوک لگ گئی۔ اس کا کچن ملک کا مصروف ترین ادارہ تھا۔ بادشاہ کو شکار کا شوق بھی تھا۔ بادشاہ ایک دن شکار پر گیا۔ عظیم الشان لائولشکر اور خدام کی صفیں ساتھ تھیں۔ کرنا خدا کا جنگل کے بیچ پہنچے تو آندھی آ گئی۔ سارا لشکر تتر بتر ہو گیا۔ شاہی گھوڑا بادشاہ کو ایک طرف پھینک کر دوسری طرف بھاگ گیا۔ اس بھگدڑ میں بادشاہ کا تاج بھی گر گیا۔ کمر بند ڈھیلا ہو کر کہیں گر گیا‘ کپڑے دھول میں اٹ گئے۔ جو ابٹنا مل مل کر چہرہ چمکایا تھا وہ بھی اتر گیا اس کی جگہ چہرے پر گرد جم گئی۔ اب وہ بادشاہ کے بجائے بھجنگ قسم کا ملنگ نظر آ رہا تھا۔ بادشاہ کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہے اور اس کا لائو لشکر کدھر ہے۔ آندھی تھم گئی تھی۔ بادشاہ ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ کھانا کھائے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا۔ بادشاہ کو غضب کی بھوک نے آ لیا۔ کہیں سے دیسی مرغی مل جائے۔ لیکن اس ویرانے میں اسے دیسی مرغی کو کون بھون کر دیتا۔ آندھی کے بعد تو کوئی جانور نظر آتا تھا نہ جانور زاد۔ اچانک اس کی نظر ایک جھونپڑی پر پڑی۔ اس کی طرف لپکا اوردستک دی۔ اندر سے ایک بوڑھا گڈریا نکلا۔ اس نے دیکھا کہ باہر ایک اس سے بھی بوڑھا بھجنگ ملنگ کھڑا ہے۔پوچھا‘ کیا بات ہے۔ بادشاہ بولا‘ مسافر ہوں راستہ بھٹک گیا ہوں۔ کچھ کھانے کو ملے گا۔ گڈریا بولا‘ کھانا تو نہیں۔ دودھ ہے ‘ پیو تو پلا دوں۔ بادشاہ نے کہا لے آئو۔ وہ ایک کٹورا دودھ کا لے آیا۔ بادشاہ ایک ہی سانس میں ڈکار گیا اور کہا اور لائو۔ گڈریے نے دوسرا کٹورا دیا۔ اس طرح ایک کے بعد ایک بادشاہ چھ کٹورے پی گیا۔ گڈریے کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔ لیکن بادشاہ کے ماتھے پر شکن آ گئی جب اس کے پوچھنے پر گڈریے نے بتایا کہ اس کے پاس دس بکریاں ہیں اور ہربکری روز کے چھ کٹورے دودھ دیتی ہے۔ چھ چھ کٹورے اور دس بکریاں‘ گویا روز کے ساٹھ کٹورے۔ پھر اس نے کہا ایک کٹورا اور لے آئو۔ گڈریا گیا کچھ دیر بعد خالی کٹورا لئے آ گیا اور بھجنگ کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا‘ کہیں تم بادشاہ تو نہیں ہو؟ بھجنگ حیران ہوا تمہیں کیسے پتہ چلا۔؟گڈریا بولا میں اندر گیا تو ساری بکریوں کے تھن سوکھے ہوئے تھے جب بادشاہ کی نیت میں فتور ہو تو بکریوں کے تھن سوکھ جاتے ہیں۔ ایسا میں نے اپنے پرکھوں سے سنا ہے۔ تم نے جب میری بکریوں کے بارے میں پوچھا۔ تبھی تمہاری نیت میں فتور آ گیا تھا۔ تم کیسے بادشاہ ہو۔ اتنے میں بادشاہ کے سپاہی اسے ڈھونڈتے ڈھانڈتے کٹیا تک پہنچ گئے بادشاہ ان کے ساتھ چلا گیا۔ ٭٭٭٭٭ کہانی آپ سمجھ گئے ہوں گے اب یہ خبر دیکھیے سی بی آر کو ایسے تمام بنک کھاتے داروں کے کوائف دے دیے گئے ہیں جن کے پاس پانچ لاکھ سے ایک روپیہ زیادہ بھی بنک میں جمع ہے۔ ایف بی آر ان سب کو نوٹس جاری کرے گا‘ ان پرٹیکس لگائے گا اور ان ’’خفیہ اثاثوں‘‘ کے بارے میں تفتیش بھی کرے گا ان سے منی ٹریل مانگے گا۔ جو نہ دے سکے نہ جانے کے ساتھ کیا کرے گا۔ پانچ لاکھ کی رقم ان فقیروں کی عمر بھر کی کمائی ہے جو لٹنے جا رہی ہے۔ ہرشے پر ٹیکس ادا کرنے والے یہ لوگ اب اپنی بچت یا جمع پونچی پر ٹیکس بھی دیں گے اور خواری بھی کاٹیں گے۔ اپوزیشن بھی اس فتورا بادشاہت کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور کوئی انگلی نہیں اٹھا رہی۔ اس سال رقم کی حد پانچ لاکھ ہے۔ کیا پتہ اگلے سال دو لاکھ ہو جائے۔حضور کی خیر‘ کیسے سنہری دن آ گئے۔ ٭٭٭٭٭ آئی ایم ایف سے امپورٹڈ گورنر سٹیٹ بنک نے قوم کو دھمکی دی ہے کہ ابھی مزید معاشی استحکام آنا ہے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ وارننگ جاری کی۔ گویا مصر پلس استحکام جو اب تک آ چکا ہے وہ اس امپورٹڈ آئٹم کی نظر میں کافی نہیں۔ گویا ڈالر کا 157پر ہونا کافی نہیں۔ گویا مہنگائی کی شرح گیارہ فیصد سے بہت آگے جائے گی۔ گویا چینی جو ًً55روپے سے 72روپے کلو ہو گئی ہے۔ سو پر جائے گی۔ گویا بجلی کے نرخ آسمانی بجلی کی طرح کڑکا کریں گے۔ گویا مزید 20لاکھ بے روزگار ہوں گے۔ گویا اب گھروں کے برتن بھانڈوں کی ’’ٹریل‘‘ بھی پوچھی جائے گی۔