انگریزی کا محاورہ ہے It is never too late۔ مگر شاید سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ دو سال ہوگئے Now it is too late۔ مردم شناسی ایک خداداد صلاحیت ہے۔ حکمران میں ہو تو اسے چار چاند لگ جاتے ہیں ورنہ گرہن کا بندوبست تو ہر وقت موجود ہے۔ جب ایک جنگ کے ہنگام میں لکڑیوں کے الائو پر گوشت تیار کیا جارہا تھا تو ایک سپاہی نے گستاخی کی۔ بادشاہ سے پہلے ہی گوشت کا ایک ٹکڑا غالباً خنجر سے کاٹا اور کھانے لگا۔ بادشاہ نے اپنے سپہ سالار سے اشارۃً پوچھا یہ کون ہے؟ گستاخ سپاہی چہرہ شناس تھا۔ بادشاہ کے تاثرات جان گیا کہ موضوع گفتگو وہی ہے۔ گھوڑے کو ایڑ لگائی اور یہ جا، وہ جا۔ بادشاہ اپنے سپہ سالار کو کہہ رہا تھا ’’اسے گرفتار کرلو۔ یہ میرے بیٹے ہمایوں کے لیے مسائل پیدا کرے گا‘‘۔ وقت نے دیکھا کہ شیرشاہ سوری نے بابر کے بیٹے ہمایوں کے ساتھ کیا کیا؟ اچھی ٹیم کا انتخاب اسی جوہر شناسی کا بنیادی کلیہ ہے۔ اکبر دی گریٹ عظیم مغل بادشاہ تھا۔ حالات نے اسے باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کرنے دی مگر اس کے نو رتن آج بھی اس کے عہد کا ذکر ہو تو چمکتے اور دمکتے ہیں۔ وزیراعظم باربار اپنی ٹیم کو بتارہے ہیں کہ اگلے چھ ماہ بہت اہم ہیں۔ اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ جناب سیاسی آپشنز تو محدود ہیں۔ آصف زرداری اور شریفس کتاب سیاست کے بند باب ہیں۔ مگر بیڈ گورننس ’’بری ٹیم‘‘، غلط فیصلے جب سرسراتے ہوئے قومی سلامتی کے حصار میں داخل ہونے لگتے ہیں تو پھر ملکی سلامتی ترجیح اول ٹھہرتی ہے۔ بری حکومت کس طرح اکانومی اور سلامتی کو مجروح اور متاثر کرتی ہے۔ یہ الگ موضوع ہے مگر ایسا ہوچکا ہے۔ صفحہ ایک تھا مگر تحریر الگ الگ تھی۔ اب جب گھنٹیاں بج اٹھیں تو پنجاب یاد آیا… تبدیلی کا خیال آیا … مگر بقول شاعر تم چلے جائو گے تو سوچیں گے؟ ہم نے کیا کھویا … ہم نے کیا پایا! کیا خان اس لیے جم کر حکومت نہ کرسکا کہ اکانومی کا برا حال تھا؟ دو سال کی کارکردگی اس لیے خراب رہی کہ حکومت کا تجربہ نہ تھا؟ ٹیم کا انتخاب بہت ہی غلط تھا؟ سیاسی کارڈ کھیلنے کی سوجھ بوجھ نہ تھی؟ ٹوکری میں جو انڈے بھی رکھے وہ سارے خراب نکلے؟ بیوروکریسی نے تعاون نہ کیا؟ نوکر شاہی نیب کے رویے سے شاکی تھی؟ مشیروں نے غلط مشورے دیئے؟ کچھ ایسی شخصیات گورننس شامل ہوگئیں جنہیں گورننس تو نہیں آتی تھی مگر بزعم خود وہ خود کو عقل مند… دانش مند… سودمند اور خردمند تصور کرتی تھیں۔ خان اپنے فیصلوں میں آزاد نہ تھا؟ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دبائو نے اسے کوئی بھی من چاہا فیصلہ نہ کرنے دیا؟ پنجاب کا مطلب اسلام آباد ہے مگر وہ اسلام آباد بیٹھ کر بھی پنجاب کی کیمسٹری کو نہ سمجھ سکا نہ ہینڈل کر سکا۔ کیا بزدار درست انتخاب تھے؟ کیا نیب اپنے فیصلوں میں آزاد تھی؟ اگر آزاد تھی تو پھر احتساب صرف نون کا کیوں ہوتا رہا؟ پی ٹی آئی اور اتحادی اس جوابدہی سے باہر کیوں رہے؟ حکومت میں جو بھی ہوتا ہے عوام اسی کو اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ نیب صرف شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے متعلق ہی جس Scam پر کام کر رہی ہے وہ 15 کھرب سے زیادہ کا ہے۔ ڈی جی نیب سلیم شہزاد شریف آدمی ہیں اور پنجاب حکومت کچھ زیادہ ہی شریف ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے شہباز گل اور اب فیاض چوہان کے باوجود پنجاب حکومت نیب کے بیانیے کو سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھانے میں ناکام رہی۔ اور پھر نیب اسلام آباد کی ہو یا لاہور کی اس کی میڈیا ٹیم کا بس یہ حال ہے کہ برادرم حسن نثار صاحب کا ایک شعر ہے ’’لینا ایک نہ دینے دو … جب تک تم ہو، تب تک تم ہو‘‘۔ وہ جونان الیکٹڈ ہوتے ہیں وہ لکیر کے کسی بھی جانب ہوں ان کا اندازِ فکر سیاسی ہو کر بھی غیرسیاسی رہتا ہے۔ وہ اگر عمران کے دائیں بائیں بیٹھے ہوں تو IPP، شوگر، پٹرول اور آٹا سکینڈل جنم لیتے ہیں۔ اگر وہ لکیر کے دوسری جانب ہوں تو ہر قسم کا سیاستدان اور میڈیا پوچھتا ہے ’’یہ پرویز خٹک کیوں بچا ہوا ہے؟ یہ خسرو بختیار کیا کر رہا ہے؟ ڈیئر کیا ہاشم خوش بخت، رزاق دائود، ندیم بابر اور دیگر کیا ہالی ووڈ ایوارڈ یافتہ فلم Un Touchables کی سٹار کاسٹ سے تعلق رکھتے ہیں؟ تو غیرسیاسی ذہن جب بھی سیاست کی بساط پر مہرے آگے پیچھے کرتا ہے تو پیادے اور فیل اپنی چال بھی بھول جاتے ہیں۔ ایسے میں جو بھی پاور پلے کی غلام گردشوں سے آشنا ہوتا ہے کانوں کو ہاتھ بھی لگاتا ہے اور میر تقی میر کا شعر بھی زیر لب بڑبڑاتا رہتا ہے ’’میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب … اسی عطا کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔ پنڈت کہہ رہے ہیں کہ وقت کم ہے۔ تو ایسے میں ایک آخری کوشش مرکز اور پنجاب دونوں میں کی جائے۔ چلئے پنجاب کی بات کرلیتے ہیں۔ جن متوقع چوائسز کی بات کی جارہی ہے ان میں علیم خان… اسلم اقبال اور محسن لغاری سرفہرست ہیں۔ آپ خادم اعلیٰ بدل کر دیکھ لیں۔ دیر ہوچکی… بہت دیر ہوچکی۔ بیوروکریسی کی کمر میں دوبارہ ریڑھ کی ہڈی ڈالنا ، اسمبلی اور کابینہ کے اندر جو گروپس بن چکے ہیں انہیں ہینڈل کرنا، چودھریوں کی حمایت قائم رکھنے کے لیے کارڈز ترتیب دینا، لوکل باڈیز کو متحرک کرنا، عوام تک تبدیلی کے ثمرات پہنچانا، کرپٹ مافیاز کے جن کو بوتل میں ڈالنا، ایسا چیف سیکرٹری لانا جو ہومیوپیتھک بھی نہ ہو اور سارے پاور پلیئرز کے لیے قابل قبول بھی ہو اور سب سے بڑھ کر پنجاب میں سیاسی وکٹ پر ایسی حکمت عملی ترتیب دینا کہ مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کو فیوز کیا جاسکے۔ وہی بیانیہ جو مریم اورنگ زیب اور ہمنوا ماڈل ٹائون میں شہباز شریف کے گھر کے باہر کھڑے ہوکر اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ نیب اور حکومت درست ہونے کے باوجود غلط غلط لگنے لگتے ہیں او رمسلم لیگ (ن) ٹھوس کرپشن کے ثبوتوں کے باوجود درست اور حق پرست نظر آنے لگتی ہے۔ انسان کا مزاج ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ ہر لیڈر اپنے مزاج کے مطابق فیصلے کرتا ہے، نتائج اور اثرات اس کی تقدیر بن جاتے ہیں۔