افغانستان کے پاکستان کے ملحقہ علاقوں میں این جی اوز کے نام پر بھارتی ایجنسی را کے مراکزپاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ سنٹر سب سے زیادہ صوبہ خوست میں موجود ہیں جہاں سے براہ راست کرم ایجنسی اور شمالی وزیرستان کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔را کی زیر نگرانی کرم ایجنسی میںپاکستانی چیک پوسٹوں پر 80 سے زیادہ حملے کئے گئے۔ان علاقوں میں طالبان کے نہ ہونے کی وجہ سے را کے ایجنٹ کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں۔ را کے مراکز کی ذمہ داری جنرل نقیب کے پاس ہے جسے کالعدم تحریک طالبان کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ خوست سمیت دیگر علاقوں کا مکمل کنٹرول بھارتی ایجنسی نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان کے پڑوس افغانستان میں امن قائم ہوجائے یہ دلی سرکار کو پسند نہیں۔ پڑوسی سے دشمنی اور پڑوسی کے پڑوس میں بیٹھ کر سازشیں کرنا چانکیہ کا پْرانا نسخہ ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی لہرافغانستان سے اٹھ رہی ہے۔ دہشت گردی کی تربیت کے بھارتی مراکز افغانستان سے پاکستان میں کارروائی کرتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کیلئے بھارت نے کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی کمین گاہیں، تربیت گاہیں ہیں۔ یہ تربیت گاہیں بھارت کے قونصل خانے ہیں۔ بھارت کے یہ قونصل خانے کالعدم تحریک طالبان کے خفیہ ٹھکانے ہیں۔ بھارت کے یہ خفیہ ٹھکانے مختلف دہشت گرد گروہوں کیلئے پناہ گاہیں ہیں۔نئی دہلی افغانستان کی طرف سے پاکستان کا گھیراؤ کرنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان مخالف افغانستان تخلیق کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان کودہشت گردوں کی جنت بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان بھارت کے ہاتھوں دوزخ بن جائے۔ پاکستان کے خلاف مورچہ بن جائے۔ کامیاب آپریشن ضرب عضب میں بھارتی ایجنٹوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے بھارت کا آلہ کار بننے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستانی فوج کے آگے ہتھیار رکھ دیئے ہیں۔ پورے پاکستان میں 'را' پراکسی جنگ کی جڑیں اکھاڑدی گئی ہیں۔ بھارت افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کی سیکیورٹی کے نام پر افغانستا ن میں پانچ ہزار فوجی اہلکار تعینات کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی حکومت نہ صرف افغان حکومت کے ساتھ مسلسل بات چیت میں مصروف عمل ہے بلکہ امریکا کو بھی قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے 2015 ء میںاس وقت کے بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اپنے دورہ امریکا کے دوران بھارتی افواج کے پانچ ہزار اہلکار افغانستا ن میں تعینات کرنے سے متعلق امریکی حکام کو آگاہ کیا۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے حالیہ بھارتی دورے کے دوران بھی اس معاملے پر تفصیلی غور کیا گیا۔ امریکی رضامندی کے بعد بھارت کی جانب سے گورکھارجمنٹ اور تبتین بارڈر فورس سے افغانستان میں تعیناتی کیلئے سلیکشن کا عمل بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔ افغانستان اور طالبان کے درمیان امن عمل کے (چین ، افغانستان ، امریکا اور پاکستان پر مشتمل) چہار فریقی مذاکرات کے چوتھے رائونڈ سے پہلے بھارتی افواج کی افغانستان میں تعیناتی کی کوشش کی جارہی تھی تاہم پاکستان کی جانب سے بھر پور مخالفت کی وجہ سے معاملہ التوا کاشکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس وقت پانچ سو سے زیادہ بھارتی سیکیورٹی اہلکار افغانستان میں مختلف جگہوں پر تعینات ہیں۔ بھارتی افواج کی افغانستان میں تعیناتی سے خطے کی کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بھارت نے افغان فوج کے لیے روس سے خریدے جانے والے ہتھیاروں اور آلات کی قیمت ادا کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔معاہدے کے تحت روس افغانستان کو چھوٹے ہتھیار فراہم کرے گا جس کی قیمت بھارتی حکومت براہِ راست ماسکو کو ادا کرے گی۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ آگے چل کربھارتی حکومت افغان فوج کے لیے روس سے خریدے جانے والے بھاری ہتھیاروں، بشمول ٹینکوں اور لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی قیمت ادا کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کرسکتی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مارٹرلانچر اور ہلکی توپیں، افغانستان بھیجی جائیں گی۔البتہ مستقبل میں اس معاہدے میں ہیوی مارٹرلانچر، ٹینک اور جنگی ہیلی کاپٹر بھی شامل ہوجائیں گے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق خدشہ ہے کہ بھارت کی جانب سے افغانستان کو ہتھیاروں کی بالواسطہ فراہمی کے اس معاہدے پر پاکستان برہمی ظاہر کرسکتا ہے کیونکہ یہ اسلحہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں میں تقسیم کر کے بھارت اور افغانستان پاکستان میں بدامنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان فوجی تعاون میں گزشتہ برسوں کے دوران اضافہ ہوا اور بھارت نے رواں سال اپنی سرزمین پر تربیت پانے والے افغان فوجی اہلکاروں کی تعداد بڑھا کر 1100 کردی جبکہ 2013ء میں 574 افغان فوجیوں نے بھارت میں تربیت حاصل کی تھی۔ بھارت افغان فوج کو گاڑیوں اور طبی آلات سمیت دیگر سامان بھی فراہم کرتا رہا ہے۔سابق کرزئی حکومت نے بھارت سے کابل کے نواح میں برطانوی تعاون سے قائم کی جانے والی ملٹری اکیڈمی کے لیے اساتذہ بھیجنے کی درخواست بھی کی تھی۔ حکومت افغانستان نے ایک سال پہلے ہندوستان سے ان ہتھیاروں کی درخواست کی تھی۔ ہندوستان پہلے سے ہی افغان فوج کو ٹریننگ دے رہا ہے۔ کابل حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہندوستان کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔اگرچہ ہندوستان فوجی ساز وسامان بنانے میں روس کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور اپنے بعض ہتھیاروں کی پیداوار کے سلسلے میں خود کفیل ہے اور انھیں برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اپنے فوجی ساز وسامان افغانستان بھیجنے میں تحفظات رکھتا ہے۔اسی بنا پر ہندوستان اپنے بنائے ہوئے ہتھیار افغانستان بھیجنے کے بجائے روسی ہتھیار خرید کر افغانستان بھیجنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ ہندوستان اور روس کے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کا روس سے اسلحہ خرید کر افغانستان بھیجنے کا ایک مقصد اور بھی ہے اور یہ ہے کہ ہندوستان اس طرح افغانستان میں اپنا فوجی اثر و رسوخ بڑھاناچاہتا ہے۔ ہندوستان روسی ہتھیاروں کے افغانستان بھیجے جانے کے اخراجات برداشت کر کے افغانستان کے سیکیورٹی اور عسکری اداروں میں نفوذ حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ روس اس ذریعے سے افغان فوج کے ہتھیاروں کے ایک حصے کوروسی بنائے رکھنا چاہتاہے تاکہ افغان فوج، مستقبل میں بھی روس سے وابستہ رہے۔انٹیلی جنس اداروں کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان جنگجو افغانستان میں بارود سے بھری گاڑیاں تیار کر کے پاکستان بھجوا رہے ہیں جنہیں امریکی اور بھارتی خفیہ ادارے مطلوبہ تکنیکی مدد فراہم کررہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی میں بھی یہی افغان جنگجو گروپ ملوث ہیں اور یہ ملک میں مزید تخریبی کارروائیوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف 1200 سے زائد بھارتی خفیہ ایجنسی ''را''کے ایجنٹ افغانستان میں اسی بات کے لئے تعینات کئے گئے ہیں کہ وہ بھارتی اسلحہ پاکستان میں اپنے ٹاؤٹوں اور ایجنٹوں کو فراہم کریں تاکہ وطن عزیز میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ''را'' کے ایجنٹ افغانستان سے افغانیوں کے بھیس میں پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت گردی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔بیشتر خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی کڑیاں جنوبی وزیرستان سے ملتی ہیں جن کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔