کیسی عجیب بات ہے کہ ہر کالم نگا رعمران خان کی تقریر پر طبع آزمائی کر رہا ہے میں نے تو کوشش کی کہ اس موضوع سے بچا جائے مگر دل نے کہا نہیں داد تو دو وگرنہ جون ایلیا کی طرح خان کہہ دے گا ’’بولتے کیوں نہیں مرے حق میں۔ آبلے پڑ گئے زبان میں کیا‘‘۔ مجھے خان کی تقریر سے بھی خدائے سخن میر یاد آیا: ہم کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے دردو غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا اس میں کتنی صداقت ہے کہ سچا سخن اصل میں خود پر بیتی واردات وگرنہ لفظوں کا مجموعہ ہے اور بے رس اظہار۔ منیزی نیازی نے بھی تو کہا تھا ’’میری طرح کوئی اپنے خون سے ہولی کھیل کے دیکھے‘‘ بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اصل چیز جذبہ اور خلوص ہے، الفاظ تو میڈیم ہیں۔ ’’جتنا بھی دل کا درد تھا لفظوں میں ڈھل گیا‘‘ وہی جو کہتے ہیں کہ بات کرنے والے نے اپنا دل زبان پر رکھ دیا بلکہ بقول قتیل ’’ہم نے تو دل جلا کر سر عام رکھ دیا‘‘ ظاہر’’اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشی‘‘ بات تقریر کی ہے بھی نہیں، سچ کے اظہار کی ہے اور وہ بھی ایسا کہ جس میں نہ کوئی بناوٹ تھی اور نہ کوئی ملاوٹ ’’لب کی جنبش سے ادا ہوتی تھیں پوری باتیں‘‘ سننے والے بھی وہ بھی سمجھ گئے جو خان نے نہیں کہی: ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی اعتراضات کرنے والے اعتراضات کرتے رہیں کہ آخر انہوں نے بھی تو کوئی کام کرنا ہے کہ وہ اس فعل کو کام سمجھتے ہیں وگرنہ خان نے اپنے حصے کی شمع جلا دی۔ مرعوب اور غلامانہ ذہن کے لوگ کہتے ہیں کہ خان کو ایٹم بم کے حوالے سے غیر ذمہ دار بات نہیں کرنا چاہئے تھی مگر وقت کا تقاضا ہی تھا کہ سلیقے سے خدشات کا اظہار کر دیا جائے کہ جنگ ہم نہیں چاہتے کہ امن پسند ہیں مگر اس پر یہ گرہ لگانا ازحد ضرور تھا کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کر دی گئی تو ہمارا انتخاب ایک غیور قوم ہو گا کہ ہم لا الہ الاللہ پر یقین رکھتے ہیں اور اسے پاک وطن کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مخالفین کو ایسے فضول ردعمل کی ضرورت کیا تھی۔ خاص طور پر بلاول نے تو بہت ہی بے معنی اور لا یعنی بات کی، کائرہ نے بھی اپنے باس کی تبتع میں کوئی سمجھداری نہیں دکھائی: یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو سراج الحق نے بات مذاق میں ڈالنے کی کوشش کی کہ سربراہان تقریریں تو اچھی کرتے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کے بعد وہ زرداری کی تقاریر بھی دکھائی گئیں۔ معلوم نہیں کہ یہ جسارت کیوں کی گئی، اس عمل سے تو عمران خان کی تقریر اور بھی اجاگر ہوئی۔ اس میں شک نہیں کہ دوسری تقریروں میں ایسے ہی معاملات اٹھائے گئے۔ ایک کی تو باقاعدہ پیپرریڈنگ تھی۔ مگر بات تب بنتی ہے کہ جب ’’زبان دل کی رفیق ہو‘‘ اس میں شک نہیں کہ بے نظیر نے کشمیر کاز کو سرد خانے میں جانے سے بچایا اور بھٹو کا والہانہ پن ہمیں بھی بھایا مگر خان نے تو دریا کو نہیں سمندر کو کوزے میں بند کر دیا۔ تین چار مسائل اور وہ بھی سلگتے ہوئے مسائل کا جرأت مندانہ اظہار یوں کر دیا کہ فرعونوں کے ماتھے پر بل پڑتے رہے اور سارا مجمع تالیاں پیٹتا رہا۔ اصل میں عمران نے پسی ہوئی قوموں کی بھی نمائندگی کی۔ یہ تقریر سچ کی ایک شکل تھی اور وہی کیٹس والی بات کہ سچ خوبصورت ہے اور خوبصورتی سچ ہے۔یہ ساری دنیا کو خوبصورت دیکھنے کی ایک خواہش ہے جہاں انصاف ہو اور امن و آشتی، خان نے دنیا کو دوزخ بنا دینے والے مجرموں کی نشاندہی بڑے سلیقے سے کی۔ ہائے ہائے حافظ برخوردار کا شعر کہاں یاد آیا: میں نیل کرائیاں نیلکاں مرا تن من نیلو نیل میں سودے کیتے دلاں دے تو رکھے نین وکیل وہ تقریر جو ہمارے کئی بزرجمہروں، جیالوں اور متوالوں کو پسند نہیں، کشمیریوں کو سرشار کر گئی۔ وہ بھارت نوازوں اور خود بھارت کے مودیوں پر بجلی بن کر گری ان کے اینکر چیخ رہے تھے کہ خان نے انہیں یدھ کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ خان کو پتہ تھا کہ بنیا کونسی زبان سمجھتا ہے۔ متعصب ہندو بات سے رام نہیں ہو سکتا۔ کچھ ہمارے دوستوں کو اور کوئی اعتراض نہیں تو یہ ہے کہ تقریر اردو میں ہونا چاہئے تھی۔ بھئی اگر پیغام اہم ہے تو پھر خان نے انہی کے میڈیم اور انہی کے لہجے میں ساری باتیں ابلاغ کر دی ہیں۔ اہل یورپ اور امریکہ کو براہِ راست مسلمانوں کا مؤقف پہنچ گیا۔ ہمارا مکمل تعارف بھی کہ ہم محمدؐ کے نام لیوا ہیں اور ہمارے دل اسی نام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ آپ روحِ محمدؐ ہمارے بدن سے نکال نہیں سکتے، حضورؐ کی شان میں گستاخی ہمارے تن بدن میں آگ لگاتی ہے۔ پھر دین وہ جو محمدؐ کا دین ہے جو سلامتی اور امن کا پیغام دیتاہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس تقریر کے باعث عمران خان کا استقبال اور دھوم دھڑکا کوئی معنی نہیں رکھتا ابھی تو آگے کا سوچنا ہے۔ خاص طور پر مہنگائی کا، میں تو پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ لوگوں کی دال روٹی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ کل میں نے گاجر کا ریٹ پوچھا تو 120روپے کلو، کھیرے 100روپے کلو، یہ وہ لوازمات ہیں جو دکاندار سبزی کے ساتھ جھونگے میں ڈال دیا کرتا تھا۔ بجلی اچانک فیول ایڈجسٹ منٹ کی مد میں 2روپے فی یونٹ بڑھا دی گئی ہے۔ لوگ مشکل میں ہیں۔ انڈسٹری بند ہو چکی ہے، بے روزگاری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ان ساری باتوں کے باوجود ایک اطمینان تو لوگوں کو ہے کہ عمران خان دولت لوٹے گا نہیں، سسٹم ٹھیک کرنے میں واقعتاً قباحتیں ہیں۔ پرانے نظام کے رسیا تبدیلی آنے نہیں دے رہے، پولیس ہے تو بیورو کریسی سے خوفزدہ ہے اور عوام پولیس سے۔ مہاتیر محمد اور اردوان کی طرح ہی عمران خان مسلمانوں کے دلوں میں بس گئے ہیں۔ مسلمانوں کا مقدمہ پیش کرنے میں وہ کامیاب رہے۔ پہلی دفعہ کسی فورم پر امریکیوں کو جواب ملا کہ بش نے سوال کیا تھا کہ مسلمان ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ خود کش حملوں کا آغاز کس نے کیا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ عمران خان نے اپنی تقریر کو کتنی سنجیدگی سے ترتیب دیا تھا۔ اپنے غصے کے باوجود توازن برقرار رکھا اور کہیں بھی وہ موضوع سے نہیں ہٹے۔ موضوعات اس میں گندھے ہوئے تھے، بالکل کسی نظم کے مصرعوں کی طرح۔ دو اشعار کے ساتھ اجازت: کیسے سنبھال پائے گا اپنے تو ماہ و سال کو میں نے اگر جھٹک دیا سر سے تیرے خیال کو تو نے بھی مجھ کو پا لیا، میں نے بھی تجھ کو پا لیا تو نے مرے زوال کو میں نے ترے کمال کو