گزشتہ روز 92ایچ ڈی ،ٹی وی کے ہفتہ وار ’’نورِ قرآن‘‘ میں سورۃ الزلزال کے مضامین پر علماء نے گفتگو فرمائی، تو کتابِ ہدایت کی آفاقیت اور نورانیت کا آفتاب مزید ضوریز اور نور افشاں ہوتا دکھائی دیا۔"کووِیڈ19ـ" نے بلا شبہ روئے زمین کو لرزہ بر اندام کیا ہوا ہے ۔ خوف اور خطرہ ہر شخص پر مسلط ہے، لوگ کورونا کے دُکھوں سے آزردہ اور اس کے لگائے لگے زخموں سے پثر مردہ ہیں، خدافراموش معاشرے بڑی بے باکی اور بے حیائی سے زمین کے گوشے گوشے اور قریے قریے کو جس طرح اپنی نافرمانیوں اور گناہوں سے آلودہ اور داغ دار کر رہے اور اپنی سطوت، طاقت اور قوت کے نشے میں غرق تھے- ان جھٹکوں نے ان پر زندگی کی حقیقت کو آشکارا اور انسانی حیات کی بے مائیگی اور بے بسی کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ نیویارک کی سب سے معروف اور مصروف شاہراہ ، جو کورونا کے سبب بالکل اداس اور ویران ہے، پر ایک امریکی شہری، اپنے ہم وطنوں کو بڑے بلیغ اور پرسوز لہجے میں، دیوانہ وار مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:اے نیویارک! ہماری انا اور تکبر نے ہمیں برباد کر دیا ہے۔اے نیویارک کے درودیوار تجھے خدا کی آواز اور پکار سنائی نہیں دیتی۔ ہر جسم اور ہر چیز اسی کے قبضے میں ہے۔ خدا کی طاقتور آواز پر لبیک کہو، تا کہ تجھے سکون مل سکے، امریکہ! ہم سب سے بری قوم ہیں، ہمیں توبہ کرنی چاہیے، نیویارک! یہ رب کے سامنے عاجزی اور جھکنے کا وقت ہے۔ توبہ اور عاجزی ہی سے عزت مل سکتی ہے، بتوں کی پرستش، سرکشی، تکبر، حب مال اور مادیت سے توبہ…یوں لگتا ہے جیسے قرآن پاک کے دیگر بہت سے عنوانات کی طرح، سورہ’’ الز لزال‘‘ کے مفاہیم اور مضامین دنیا کی سمجھ میں آنے لگے ہیں : ٭جب زمین ہلاکر رکھ دی جائے گی ، جیسا کہ ہلانا اس کے لیے مقرر ہے۔ ٭اور زمین اپنے بوجھوں کو باہر نکال پھینکے گی۔ ٭اس حال میں انسان کہے گا اسے کیا ہوگیا۔ ٭اس دن زمین اپنی خبریں خودبیان کرنے لگے گی۔ ٭ کیوں کہ آپ کے ربّ نے اس کے لیے یہ بات وحی کے ذریعہ بتادی ہے۔ ٭اس دن لوگ مختلف حالتوں میں قبروں سے نکل پڑیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ ٭پس جو شخص وزن میں ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا، اس کی اچھی جزا پائے گا۔ ٭ اور جو وزن میں ذرہ بھر بھی برائی کرے گا ، تو وہ بھی اُسے دیکھ لے گا۔ ایک شخص نبی اکرمﷺ رسول رحمت کی خدمت میںحاضر ہوا، اور عرض کرنے لگا، مجھے کچھ تعلیم ارشاد فرمایئے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’الم‘‘ والی تین سورتیں پڑھ لو ، وہ عرض کرنے لگا یارسول اللہ ﷺ میں بوڑھا ہوگیا ہوں، حافظہ کمزور اور زبان بے صلاحیت ہوگئی ہے ، اب اتنی استعداد نہیں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا تو ’’ حٓم‘‘ والی سورتیں پڑھ لو۔ اس شخص نے اپنا عذر پھر دھرایا، اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ! مجھے کسی مختصر مگرجامع سورت کا درس ارشاد فرمایئے، اس پر اسے حضورﷺ نے سورہ زلزال پڑھائی ، جب وہ پڑھ چکا ، تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا، میں اس میں ہر گز کسی چیز کا اضافہ نہیں کرونگا، وہ جانے لگا تو حضورﷺ فرمانے لگے، یہ شخص کامیاب ہوگیا ، اور اس نے نجات پائی۔اسی طرح ایک اور روایت ہے ، کہ ایک شخص حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم آپﷺ کو عطا فرمایا ہے، اس میں سے کچھ مجھے بھی عنائیت فرمایئے، حضورﷺ نے اسے اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کے سپرد فرماتے ہوئے حکم دیا کہ اِسے قرآن پاک کی تعلیم دیجئے۔ انہوں نے اسے سورۃ الزلزال کی تعلیم دی، جسے سیکھ کر وہ شخص خوشی سے جھوم اُٹھا اور کہنے لگا:’’ میرے لیے یہی کافی ہے"حضورﷺ نے فرمایا:" اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ،یہ مرد ِفِقہیہ بن کر لوٹا ہے۔‘‘ اس کی دوسری اور تیسری آیت میں وقوع قیامت کے مناظر میں زمین کے خزانے نکلنے اور بوجھ باہر آنے، جس میں اس کے دفینے بھی شامل ہیں اور پھر زمین پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات، زمین کے از خود بیان پر عقلیت جدیدہ کے حامل ابہام میں مبتلا ہوئے۔ بر صغیر میں جن کے امام سر سیّد احمد خاں ہیں، جنہوں نے ہر چیز کی ’’ سائینٹفک توجیح‘‘ پیش کرنے کی کوشش کی، اور پھر اُ سے منطقی انتہا تک پہنچانے میں علامّہ مشرقی نے اپنا حصّہ ڈالا، اور غلام احمد پرویز وغیرہ اِسی شجر کے برگ و بار تھے۔بِلا شبہ سر سیّد احمد خاں بھی بہت بڑے عالم تھے، وہ خانوادہ ولی الہٰی کے شاگرد ہونے کے ساتھ، مرزا مظہر جانجاناں کی معروف نقشبندی خانقاہ کے وابستگان میں سے بھی تھے، اور ان کے جانشین حضرت شاہ غلام علی دھلوی سے از حد محبت اور عقیدت کے حامل تھے، انہوں نے ہی آپ کا نام’’احمد‘‘ رکھا، اور بسم اللہ کی رسم بھی آپ ہی کے ہاتھوں ہوئی۔ لیکن سر سیّد احمد کے عقائد و نظریات میں ، بعد ازاں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہ امّت کے لیے قابل قبول نہ ہوسکیں، اسی طرح ابو الفضل اور فیضی بھی تو بہت بڑے عالم تھے، فیضی نے 1593 ء میں قرآنِ مجید کی ’’ غیر منقوط تفسیر‘‘ لکھی ،یعنی ایسی تفسیر جس میں کوئی ایسا حرف استعمال ہی نہ ہوا، جس پر کوئی نقطہ ہو، یہ زبان وبیان اور لغت پر ان کی مہارت کا مُنہ بولتا ثبوت ہے ، لیکن دوسری طرف یہ کہ ’’ دینِ الہٰی‘‘ کی تدوین میں بھی انہی کا بنیادی کردار تھا، در حقیقت بڑا فتنہ، کبھی کسی عامی یا جاہل کی طرف سے نہیں اُٹھتا، بلکہ بڑے بڑے سکالرز اور پڑھے لکھے اصحاب فکر و فن، جب اللہ کے فضل کے محروم ہوتے ہیں، تو ایسے فتنوں کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ دراصل جب نیت میں کجی اور طبیعت پر تفوق اور تکبر غالب آجائے تو پھر : تکبر عزازیل را خار کرد سر سیّد احمد خاں کا قوم کے حوالے درد اور خلوص اپنی جگہ معتبر اور محترم تھا، لیکن دین کے راہ میں انہوں نے کئی مقامات پر ٹھوکریں کھائیں اور اس کے نتائج آج تک اُمت بھگت رہی ہے اور اس کی شدت اس وقت پڑھ جاتی ہے کہ جب کوئی نئی فکر اختیار کرنے والا کسی ادارے، کالج، یونیورسٹی یا مدرسے کا ذمہ داربھی ہو، تو ایسے میں ان کے علمی اور عملی دائر ہ فکر و عمل میں آنے والے طلبہ و اساتذہ بھی کسی نہ کسی سطح پر اس رنگ میں رنگے جاتے ہیں، تو سر سیّد احمد خان کے اثرات علی گڑھ یونیورسٹی پر پوری طرح آئے۔یَومَئِذً تُحَدِّثُ اَخْبَارَھاَ: یعنی زمین اُس دن اپنی خبریں خودبیان کرنے لگے گی۔ابو مسلم اصفہانی جو معتزلہ کے بہت بڑے عالم تھے ، معتزلہ"Rationalist" یعنی عقلیت پسند ہوتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ زمین صرف’’زبانِ حال‘‘ سے یہ سب کہے گی،اس میں محض کیفیت ہے، باقاعدہ تکلم نہیں۔جبکہ جمہور علما اور مفسرین اسکے با لفعل بولنے کے قائل ہیں۔ ویسے آج کے حالات نے ان چیزوں کو عام زندگی میں ثابت کردیا ہے، ٹیپ ریکارڈر، ایک بے جان چیز ہے، مگر بولتی ہے، ٹیلی ویژن بولتا ہے۔ اصل میں آج کی سائنسی ایجادات نے دین کی بہت سی حقیقتوں کو ماننے میں سہولت پیدا کردی ہے ۔ باَنّْ رَبّکَ اَوْ حٰی لَھَا ۔اس لیے کہ تیرے رب نے اُسکی طرف وحی کی ہوگی۔ ’’وحی نبوت‘‘ کے علاوہ اُسکی وحی تو کسی کو بھی ہوسکتی ہے اور پھر اس کا اذن ہو، تو بے جان میں بھی جان پڑ جاتی ہے۔