اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈی جی کو پلاٹ کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت درخواست گزار کے وکیل کی استدعا پر ملتوی کرتے ہوئے سوال اٹھا یا ہے کہ جب قانون ختم ہوگیا تو ادارے کے ملازمین کو قواعد کے تحت پلاٹس کیسے الاٹ کئے گئے ؟چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سابق ڈی جی پی ڈی اے سلیم وٹو کی پلاٹ کی منسوخی کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا یہ تو نماز اور روزے والا حساب ہو گیا،سلیم وٹو نے سکیم بنا لی اور پلاٹ اپنے نام کردیا۔سلیم وٹو کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کو پلاٹ الاٹ ہوا لیکن بعد میں کینسل کردیا گیا۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا تین لوگوں نے رولز بنا لئے اور پلاٹ ان کو خود بھی ملے ۔چیف جسٹس نے وکیل سے کہاہائیکورٹ کے فیصلے میں تو کسی کو پلاٹ نہیں دیا گیا۔وکیل نے کہا تمام لوگوں کو پلاٹ ملے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر آپ اسکو چیلنج کرتے ۔جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا رولز تو قانون کے تحت بنتے ہیں جب قانون ہی ختم ہوگیا تو رولز کیسے بنائے گئے ؟ چیف جسٹس نے کہا جب 1978ء کا قانون 2001ء میں ختم ہوا تو آپ نے رولز کیسے بنائے ؟اسمیں تو سب نے لپیٹ میں آنا ہے ، ہم آرڈر دیتے ہیں جو ہوگا سب کے ساتھ ہوگا۔جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا یہ تو وہ بات ہوگئی کہ سارا میلہ سجا ہی میرا رومال چوری کرنے کیلئے تھا۔چیف جسٹس نے کہا رات کو سوچ رہا تھا، پی ڈی اے کے افسر عوام کی خدمت کے بجائے اپنی خدمت کرتے رہے ۔جسٹس اعجا زالاحسن نے کہا کس قانون اور لیز کے تحت سوسائٹی وجود میں آئی ؟ وکیل نے کہا کہ انھیں وقت دیا جائے سارے بیک گراؤنڈ سے عدالت کو آگاہ کر دیں گے ۔