سری نگر کے اس چھوٹے سے گھر میں چار لوگ رہتے ہیں۔ ایک حفیظہ بی بی‘ اس کا شوہر‘ بیٹی شفیقہ اور اس کا معذور دیور بھی ان کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہے۔ 52سالہ حفیظہ بی بی‘ کئی سالوں سے پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی مریضہ ہے۔ جسے سائیکاٹری کی اصطلاح میں PTSDکہا جاتا ہے۔ حفیظہ بی بی کی کہانی کشمیر کی دوسری مائوں کی کہانی کی طرح بے حد المناک ہے۔1993ء میں اس کے اکلوتے 13سالہ بیٹے جاوید کو بی ایس ایف کے اہلکار اس وقت گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے جب وہ دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا۔ حفیظہ بی بی آج بھی اس سانحے کو یاد کرتی ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ اکلوتے بیٹے کو ظالموں نے ماں باپ کے سامنے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور پھر اس کے بعد اس کا کوئی نام و نشان آج تک نہیں مل سکا۔ حفیظہ بی بی برسوں اپنے بیٹے کو سری نگر کی گلیوں میں دیوانہ وار تلاش کرتی رہی۔ اس دوران اس کی بیٹی ہارٹ اٹیک سے چل بسی۔ حفیظہ بی بی کا شوہر بتاتا ہے کہ اکلوتے بھائی کی گمشدگی نے میری بیٹی کو ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ اس نے اس حادثے کو اتنا دل پر لیا کہ بالآخر چل بسی۔ حفیظہ بی بی آج تک اپنے بیٹے اور بیٹی کی یاد میں تڑپتی ہے۔ وہ راتوں کو اٹھ کر انہیں آواز دیتی ہے۔ ان حالات میں حفیظہ بی بی کا شوہر اسے سری نگر ہسپتال کے سائیکاٹری وارڈ میں لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی ذہنی بیماری کو PTSDکے نام سے تشخیص کیا۔ وہ کئی برسوں سے اس نفسیاتی بیماری کی دوائیں لے رہی ہے لیکن اس کی ذہنی حالت بجائے بہتر ہونے کے بگڑتی جاتی ہے۔ حفیظہ بی بی کی یہ کہانی ایک ریسرچ رپورٹ میں چھپی جسے ایک انٹرنیشنل تنظیم Doctors with out bordersنے مرتب کیا۔ ان کی ریسرچ کا موضوع تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے لوگ دہائیوں سے بھارتی ظلم سہتے ہوئے ایک جنگی کشمکش اور عدم تحفظ کے ماحول میں رہ رہ کر کئی طرح کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ بچے اور عورتیں ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس ریسرچ رپورٹ کے مطابق یہاں رہنے والوں میں 45فیصد لوگ ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے 93فیصد لو گ ایسے ہیں جو اپنی زندگی میں کسی جذباتی صدمے سے ضرور گزرے ہیں جیسے کسی قریبی عزیزکی پرتشدد موت‘ کسی رشتہ دار یا قریبی عزیز کی گمشدگی یا اس پر ہونے والا تشدد یا کسی اپنے کی موت۔ یہ سب وہ جذباتی صدمے ہیں جن سے گزر کر بیشتر افراد کے ذہنی توازن کو شدید دھچکا لگتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 35فیصد کشمیری خواتین میں ذہنی دبائو‘ ڈیپریشن اور اینزائٹی کے امراض پائے گئے جبکہ 22فیصد مردوں کو ڈیپریشن اور اینزائٹی کے مسائل لاحق ہیں۔انٹرنیشنل جرنل آف ہیلتھ سائنسز میں 2016ء میں ایک رپورٹ شائع ہوئی انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز نے چونکا دینے والی ریسرچ کی کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ رپورٹ ہونے والی ذہنی امراض کی تعداد مقبوضہ کشمیر میں ہے جہاں دہائیوں سے ہونے والے بھارتی ظلم و استبداد نے قریب قریب 95فیصدآبادی کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔اس انسٹی ٹیوٹ نے اپریل 2016ء سے مارچ 2018ء تک ذہنی مریضوں کے جو اعداد و شمار بتائے اس کے مطابق صرف اس ایک سال میں سری نگر کے سائیکائٹری ہسپتال میں 366,906کشمیریوں کو PTSDپوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا مریض قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ذہنی امراض کے بیشتر کیسز تو رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ جسمانی بیماریوں کے برعکس‘ نفسیاتی بیماریوں کو عام طور پر بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اس لئے اگر اس بات کو مد نظر رکھا جائے تو مقبوضہ وادی کا ہر فرد خواہ وہ مرد ہے‘ عورت ہے، بزرگ ہے یا بچہ، کسی نہ کسی لیول کے ڈپریشن اور ذہنی دبائو سے گزر رہا ہے۔ اس ریسرچ رپورٹ میں کئی ایسی کشمیریوں مائوں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں جن کے جوان بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ جن کے شوہروں کو بھارتی فوجی اٹھا کر لے گئے۔ جن کی بیٹیاں عصمت دری کے اذیت ناک فعل سے گزریں اور ان المناک حادثوں نے ان کشمیری مائوں کو ذہنی مریض بنا دیا۔ ریسرچ رپورٹ کے آخیر میں جو تجاویز دی گئیں ہیں وہ مجھے تو مضحکہ خیز لگیں۔ مثلاً تجویز دی گئی ہے کہ وادی میں سائیکائٹری کلینک زیادہ ہونے چاہئیں۔ ذہنی مریضوں کی نفسیاتی ہسپتالوں تک رسائی ہونی چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ سوال یہ ہے نفسیاتی کلینک قدم قدم پر بھی کھول دیں تو اس سے ذہنی امراض کم نہیں ہونے والے۔ اپنی ہی سرزمین پر قیدی بنا دیے جانے والے یہ کم نصیب کتنی دہائیوں سے بھارتی استبداد اور ظلم سہہ رہے ہیں۔ زندگی جس طور ان کے ویران آنگنوں سے گزرتی اس کی اذیت وہی جانتے ہیں۔دہائیوں سے بھارتی جبر کا شکار کشمیری‘ اب گزشتہ 185دنوں سے اپنے ہی گھروں میں محصور ہیں۔ خوف ‘ سہم مسلسل عدم تحفظ اور موت کے تاریک سائے ایک وحشت کی طرح ان کی زندگیوں کویرغمال بنائے ہوئے ہیں اس پر عالمی منصفوں کی مسلسل بے حسی کسی تازیانے سے کم نہیں۔ ایسے وحشت سے بھرے ماحول میں جہاں زندگی کا توازن بگڑ چکا ہو۔ وہاں ذہنی اور نفسیاتی توازن کیسے برقرار رہ سکتا ہے۔ زندگی امن کی فضا میں نمو پاتی ہے۔ جہاں مسلسل جبر ہو۔ انسانیت کی تذلیل اور تضحیک ہو۔ انسان کا آزادی جیسا بنیادی حق چھین لیا جائے وہاں ہر دوسرے گھر میں کوئی نہ کوئی حفیظہ بی بی موجود ہے۔ ان سارے دکھوں کا مداوا آزادی ہے۔ ظلم اور جبر و استبداد سے آزادی۔!