اگر اتفاق فائونڈری چلائی جا سکتی ہے تو سٹیل مل کیوں نہیں چلائی جا سکتی۔ عمران خان کی جانب سے ماضی میں دی گئی اس دلیل کو مستعار لے کر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر نمل اور شوکت خانم چلایا جا سکتا ہے تو روزویلٹ کیوں نہیں چلایا جا سکتا ؟ یہ مارچ 2016 کی بات ہے جب قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ممبر قومی اسمبلی ساجدہ بیگم نے سوال کیا تھا کہ کیا روز ویلٹ ہوٹل منافع کما رہا ہے ؟ اگر ہاں تو کتنا؟متعلقہ ادارے کی طرف سے جواب ملا کہ پچھلے پانچ سال میں 16ملین ڈالر کا منافع کمایا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2016 کے بعد ایسا کیا ہوا کہ نومبر 2019 تک پہنچتے پہنچتے پی آئی اے نے پرائیویٹائزیشن کمیشن کو سمری بھیج دی کہ روز ویلٹ ہوٹل خسارے میں جا رہا ہے ، اخراجات بڑھ گئے ہیں ، اس کو چلانے کے لیے متبادل آپشنز پر غور کیا جائے ، اسے جوائنٹ وینچر کے ذریعے چلایا جائے ، ٹھیکے پر دے دیا جائے یا پھر کوئی اور راستہ ڈھونڈا جائے ۔ پندرہ جولائی کو مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پرائیویٹائزیشن کے اجلاس میں سوال کیا کہ کیاروز ویلٹ کے جوائنٹ وینچر یا کسی اور طریقے سے چلانے کے لیے ہمارے پاس کوئی آفر موجود ہے ؟جواب ملا امریکی صدر ٹرمپ اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔پھر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں خبرآئی کہ 31 اکتوبر سے روزویلٹ ہوٹل کے تمام آپریشنز بند کر دیے جائیں گے۔ صرف یہیں قصہ ختم نہیں ہوا بلکہ گذشتہ روز ایک خبر اور موصول ہوئی ہے کہ روزویلٹ ہوٹل آسیب زدہ ہے ، اس کے کچھ کمروں کے پردے ہلتے رہتے ہیں ، کم روشنی میں سائے سے لہراتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس خبر کے آنے کے بعد مجھے تجسس یہ ہوا کہ جس طرح پاکستان میں کسی پراپرٹی کی قیمت گرانے کے لیے علاقے میں مشہور کر دیا جاتا ہے کہ یہ آسیب زدہ ہے ، پھر جب کوئی اسے خریدنا نہیں چاہتا توایک موقع پرست آگے بڑھ کر نہایت کم قیمت میں اسے خرید لیتا ہے ، تجسس مجھے یہ ہوا کہ کیا امریکہ میں بھی پراپرٹی کی قیمت ایسے ہی گرائی جاتی ہے جیسے کہ پاکستان میں؟ یا پھر واقعی ہوٹل سنسان پڑا ہونے کے باعث وہاں امریکی جنات نے قبضہ جما لیا ہے ۔ اب جب نیب نے روز ویلٹ ہوٹل کے بند ہونے پر تحقیقات کا نوٹس لیا ہے تو اسے دیگر پہلوئوں کے ساتھ اس پہلو پہ بھی غور کرنا چاہییے کہ آسیب اصلی ہے یا مصنوعی ۔منیر نیازی نے کہا تھا منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے او ر سفر آہستہ آہستہ کبھی کبھی تو لگتاہے کہ منیر نیازی کا شبہ ٹھیک تھا اور اس ملک پہ واقعی آسیب کا سایہ ہے ۔ تبھی تو گزشتہ برس پاکستانی وفد کے امریکہ سے آنے اور امریکی صدر کے اسے خریدنے کی خواہش کے اظہار کے بعد سے روز ویلٹ نقصان میں جانے لگا اور پاکستان کو بوجھ لگنے لگا۔ تبھی توپاکستانی وفد کے امریکہ سے آنے کے اگلے ہی مہینے نومبر 2019 میں پی آئی اے نے حیران کن طور پر ایک سمری بنا کر پرائیویٹائزیشن کمیشن کو تھما دی اور روز ویلٹ ہوٹل کو چلانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن نے بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے حیران کن طور پر ایک ٹاسک فورس تشکیل دے دی اور حیران کن طور پر اس ٹاسک فورس میں زلفی بخاری کو بھی شامل کر دیاجن کا پی آئی اے سے تعلق تھا،ایوی ا یشن سے اور نہ ہی پرائیویٹائزشن کمیشن سے ۔اس سارے کھیل پر دو لوگوں نے اعتراض اٹھایا ،پہلے سیکرٹری ایوی ایشن شاہ رخ نصرت نے ، جن کا کہنا یہ تھا کہ روز ویلٹ ہوٹل کے بارے میں کوئی بھی سمری ایوی ایشن کی طرف سے آنی چاہیے تھی کیونکہ پی آئی اے ایوی ایشن کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی سمری پی آئی کی طرف سے نہیں آ سکتی۔ شاہ رخ نصرت کی اس جسارت پر ان کے ساتھ وہی ہوا جو پاکستان میں ہوتا ہے یعنی انہیں تبدیل کر دیا گیا۔ اس پر دوسرا اعتراض دسمبرکے پہلے ہفتے میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں غلام سرور خان نے اٹھایا۔ ان کا موقف تھاکہ پرائیویٹائزیشن کمیشن کے پاس ایسی کسی ٹاسک فورس بنانے کا اختیار نہیں ،دوسرا ان سے پوچھے بغیر ان کے سیکرٹری کو تبدیل کیوں کر دیا گیا۔ وزیراعظم نے اس جھگڑے کو نمٹانے کے لیے ایک اور کمیٹی بنا دی جس میں اسد عمر، غلام سرور خان، حفیظ شیخ ،رزاق دائود اور مراد سعید کو بھی شامل کر دیا گیا۔ اس کمیٹی نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں پہلا فیصلہ تو یہ کیا کہ زلفی بخاری کو ٹاسک فورس سے نکال دیا ۔ گویا یہ تسلیم کر لیا گیا کہ زلفی بخاری کو ایسی کسی ٹاسک فورس میں ڈالنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ اسی اجلاس میں اس معاملے پر مزید غوروفکر کرنے پر اتفاق ہوا ۔ پھر کچھ عرصے بعد کوویڈ آ گیا۔ پوری دنیا کی ہوٹل انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی ۔ لیکن ہمیں روزویلٹ کو بند کرنے کا جواز مل گیا اور ہم نے اس ہوٹل کو بند کرنے کی ساری ذمہ داری کوویڈ پہ ڈال دی جسے پہلے ہی بند کرنے کے لیے جواز ڈھونڈے جا رہے تھے۔ تین جولائی کوہونے والی ہوٹل کی بورڈ میٹنگ میں حکومت کو سفارش کی گئی کہ ہوٹل کو بند کر دیا جائے۔ نیز یہ کہ ہوٹل کو بند کرنے کے لیے سٹاف کو فارغ کرنے اور ان کے واجبات ادا کرنے کے لیے 20 ملین ڈالر کی ضرورت ہے ،وہ ادا کیے جائیں۔مزید یہ کہ ہوٹل کے ذمہ 105 ملین ڈالر کا واجب الادا قرضے کی رقم بھی فراہم کی جائے تاکہ پی آئی اے کی گارنٹی چھڑائی جا سکے ۔ نیب نے روزویلٹ ہوٹل کو بند کرنے کا نوٹس لے لیا ہے ، نیب کو چاہیے وہ تلاش کرے کہ روز ویلٹ پر قبضہ کرنے والے جنات امریکی ہیں، پاکستانی ہیں یا برطانوی؟ یا پھر سب جنات نے مل کر ہوٹل پہ قبضہ کر لیا ہے ؟