ملتان (نیوز رپورٹر،خبر نگار،مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے جج اور عام آدمی میں فرق فیصلہ دینا ہے ، اگر جج کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ نہیں دیتا تو اس میں اور عدالت کے قاصد میں کوئی فرق نہیں،ججز کو معاشرے میں عزت ملتی ہی اس لئے ہے کہ وہ فیصلے کرتے ہیں،معاشرہ کیوں جج کی عزت کریگا، وکیل جو عزت کرتے وہ صرف جج کی وجہ سے ہے ،میں یہ باتیں نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن ہوسکتا ہے میں بطور چیف جسٹس ملتان دوبارہ نہ آسکوں، ہمیں جوڈیشل سسٹم کو مضبوط بنانے کے ساتھ وکلاء کی پرانی روایات کو بھی بحال کرنا ہوگا اور نوجوان وکلاء کو تربیت دینی ہوگی تاکہ ایک گاڑی کے دو پہیوں کے آگے بندھے گھوڑے یعنی سائل کو انصاف فراہم کیا جاسکے ،ہر قدم پر وکلا اور ججز کو سوچنا چاہئے کہ اس معاملے سے سائل کو کیا فائدہ ہوگا،میں نے پانچ سال قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ میری عدالت میں کسی مقدمہ کی سماعت ملتوی نہیں ہوگی سوائے دو صورتوں میں کہ وکیل کا انتقال ہوجائے یا جج رحلت فرما جائے ۔لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان میں انصاف کی فراہمی کے موضوع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا وکالت کا آغاز ملتان سے کیا اور ملتان ہائیکورٹ بنچ کی تشکیل کے پہلے روز بھی عدالت میں بطور وکیل 10 جنوری 1981 کو پیش ہوا، ملتان سے محبت اور پیار ملا، سینئر وکلا نے بہت کچھ سکھایا، ملتان بینچ سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں، ٹیبل ٹینس سمیت کئی کھیلیں ہوا کرتی تھیں جن کا چیمپئن رہا،سردار لطیف کھوسہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور آج بھی کئی چیزوں میں وہ کپتان ہیں، سپریم کورٹ کا وکیل بنا تو لاہورچلا گیا،اس وقت کوئی عدالت کے اندر کسی سانحہ کے بارے میں نہیں سوچ سکتا تھا، اب میں سوچتا ہوں حالات ویسے نہیں رہے ۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں، معاشرہ غیر متوازن ہوگیا اور سینئر اور جونیئر وکلاء میں فرق پیدا ہوگیا،ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے ججز پر بوجھ ہے اور اسی وجہ سے وکلا کو مکمل نہیں سنا جاتا،ججز کوشش کرتے ہیں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ کیسز کی سماعت کرکے فیصلہ کریں۔چیف جسٹس نے کہاقانون کے ساتھ چیٹنگ کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جاسکتا،وکالت اور ڈاکٹرز کا نوبل پروفیشن ہے ، کیمرج یونیورسٹی میں جب پڑھتا تھا تو اس وقت گاؤن پہننا لازمی تھا جس کا ایک ہڈ ہوتاتھا، اس وقت بیرسٹر کیسز کی فیس نہیں لیا کرتے تھے کیونکہ یہ سب وہ سائلین کی خدمت کے لیے کرتے تھے ، سائل ہڈ میں پیسے ڈال دیا کرتے تھے ، اب بہت سے نئے وکلا آگئے جن کو تہذیب کا پتہ نہیں، ہمارے دور میں سینئرز اور جونیئرز کا احترام ہوتا تھا،ان تمام چیزوں کو بیٹھ کر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ،سیکھنے اور سکھانے کی روایت کو آگے لے کر چلنا ہے وکالت پیسہ بنانے کیلئے نہیں ،خدمت کیلئے کی جاتی ہے ،اچھا وکیل ہونے کے لیے تاریخ، ریاضی اورادب پر عبور ہونا چاہئے ۔دریں اثنا چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ آج ایک روزہ دورے پراپنے آبائی شہر ڈیرہ غازی خان پہنچیں گے ،وہ دوپہر دو بجے ڈسٹرکٹ بار سے خطاب کریں گے ، چیف جسٹس آبائی قبرستان جا کر بزرگوں اورعزیز و اقارب کی قبروں پہ فاتحہ خوانی بھی کریں گے ۔