اسلام آباد(خبر نگار، مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے خود کسی کو باہر جانے کی اجازت دی ، ہائیکورٹ نے صرف جزیات طے کیں۔ سپریم کورٹ میں موبائل ایپ کال اور ریسرچ سنٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے وزیراعظم کے عدلیہ سے متعلق بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا ججوں پرتنقید کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں، طاقتور کا طعنہ ہمیں نہ دیں، وزیراعظم نے جس کیس کا طعنہ دیا اس پر بات نہیں کرنا چاہتا، ججز پر تنقید اور طاقتور کا طعنہ ہمیں نہ دیں۔ آج کی عدلیہ کا تقابل 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے ، ایک وزیراعظم کو ہم نے سزا دی اور دوسرے کو نااہل کیا جبکہ ایک سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے ۔ کوئٹہ کے کیس کا 3 ماہ میں سپریم کورٹ سے فیصلہ ہوا، 2 دن پہلے ایک قتل کیس کا ویڈیو لنک کے ذریعے فیصلہ کیا۔ ملک بھر میں3100 ججز نے گزشتہ سال36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کئے ، سپریم کورٹ میں 25 سال سے زیرالتوا فوجداری اپیلیں نمٹائی گئیں، جن لاکھوں افراد کو عدلیہ نے ریلیف دیا انہیں بھی دیکھیں، 36 لاکھ مقدمات میں سے صرف تین چار ہی طاقتور لوگوں کے ہونگے ۔اگر کوئی میڈیا کی مہربانی سے طاقتور کہلانا شروع ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ طاقت کا مسئلہ ہے ،یہ اتنے ناتواں لوگ تھے جس کا آپ کو اندازہ بھی نہیں،یہی کہوں گا اس بیان پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔وزیراعظم نے جس کیس کی بات کی وہ ابھی زیرالتوا ہے اسلئے اس پر بات نہیں کروں گا، وزیراعظم نے طاقتور اور کمزور کی بھی بات کی۔ اب ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہو رہی تھی، وزیراعظم وسائل دینگے تو مزید اچھے نتائج بھی سامنے آئینگے ، وزیراعظم نے دو دن پہلے خوش آئند اعلان کیا کہ عدلیہ کو وسائل دینگے ۔انہوں نے کہا ماڈل کورٹس نے تمام نتائج صرف 187 دنوں میں دئیے ، فیملی مقدمات طاقتور لوگوں کے نہیں ہوتے ، 20 اضلاع میں کوئی سول اور فیملی اپیل زیرالتوا نہیں، منشیات کے 23 اضلاع میں کوئی زیرالتوا مقدمات نہیں، ماڈل کورٹس کی وجہ سے 116 اضلاع میں سے 17 میں کوئی قتل کا مقدمہ زیر التوا نہیں، تمام اپیلوں کے قانون کے مطابق فیصلے کیے گئے ، تمام اپیلیں ناتواں لوگوں کی ہیں طاقتور اور کمزور میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ سائلین اور وکلا کی سہولت کے ویڈیو لنک کا نظام متعارف کرایا گیا، چاروں رجسٹریوں کوویڈیو لنک کے ذریعے پرنسپل سیٹ سے منسلک کیا گیا، اب سائلین ،وکلا اور میڈیا سمیت ہر عام شخص سپریم کورٹ کی جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوسکتا ہے ،ریسرچ سنٹر میں تمام نئے اور پرانے فیصلے حاصل کیے جاسکتے ہیں،سپریم کورٹ کی دستاویزت کیلئے اسٹا کوڈ بھی متعارف کرا رہے ہیں۔عدلیہ کو ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید خطوط پر استوار کرنا ہے ،آج پاکستانی عدالتوں میں بھی وہ تمام چیزیں استعمال ہو رہی ہیں جو دنیا کی عدالتوں میں ہوتی ہیں،جو سہولیات نہیں ان کیلئے کوشاں ہیں۔ کال سنٹر کے ذریعے معلومات تک رسائی آسان بنائی گئی ہے ۔لوگ گھر بیٹھے اپنے مقدمات سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا جو طبقے ججز پر اعتراض کرتے ہیں وہ تھوڑا احتیاط کریں،ججز یہ کام عبادت سمجھ کر کرتے ہیں،طاقت کا طعنہ ہمیں نہ دیں، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے ،اگر کوئی اتنے جذبے سے کام کررہا ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔چیف جسٹس نے کہا ہم نے پارلیمان سے کسی قانون میں ترمیم کا مطالبہ بھی نہیں کیا، موجودہ قوانین کے مطابق جذبے کیساتھ ججز کام کر رہے ،187 دن میں 73 ہزار ٹرائل مکمل ہوئے ۔ نئے بنچز کا مطالبہ اب اپنی اہمیت کھو چکا ،اب جہاں بنچ کی ضرورت ہو وہاں سکرین لگائی جاسکتی ہے ،سنگاپور کی طرز پر عدالتی نظام لانا چاہتے ہیں۔سنگاپور میں وکلا اپنے دفتر سے دلائل دیتے ہیں اور جج اپنے چیمبر میں سنتا ہے ۔نادرا اور وزارت قانون کے بے حد مشکور ہیں،ہم نے اپنے موجودہ وسائل میں یہ سب ممکن بنایا،ہم نے کوئی الگ سے بجٹ نہیں لیا،آج سپریم کورٹ نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک اور سنگ میل عبور کر لیا ہے ۔این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا عدلیہ میں خاموش انقلاب آگیا ہے ۔ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور ہمارے منتخب نمائندے ہیں، وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات دیتے وقت خیال کرنا چاہیے ۔ اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے ۔