یہ گذشتہ روز کی بات ہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون وَن میں چائے کے ڈھابے پر پانچ بجے کے قریب اضافی کرسیاں لگنا شروع ہوگئیں،یہ کرسیاں جو کہ بیس سے پچیس کی تعداد میں تھیں،دیکھتے ہی دیکھتے ترتیب میں لگ گئیں۔یہ اہتمام کرنے والے تین لڑکے تھے ،جن کی عمریں بیس بائیس برس تھیں۔مَیں یہ منظر خاموشی سے دیکھتارہا،یہ گرمیوں کا پہلا دِن تھا ،جب درجہ حرارت چالیس ڈگری کو چھوچکا تھا،تینوں نوجوان کرسیاں لگاتے اور میزوں کی ترتیب ٹھیک کرتے ،پسینہ سے شرابور ہوچکے تھے،پھر ایک اور نوجوان آیا اور اُس نے پیپلزپارٹی کے جھنڈے اور پینافلیکس لگانا شروع کردیے،پینافلیکس کی عبارت سے معلوم پڑا کہ ابھی تھوڑی دیر کے بعد یہاں پیپلزپارٹی کی رُکنیت سازی ہوگی اور اسلام آبادمیں پی پی پی کی مقامی قیادت آئے گی۔میرے ساتھ بیٹھے ایک دوست نے نوجوانوں سے کہا کہ جتنی کرسیاں لگادی گئی ہیں ،اتنے لوگ بھی آجائیں گے؟صاف ظاہرہے کہ یہ اُن کاطنزیہ اندا زتھا۔تھوڑی دیر کے بعد پندرہ بیس موٹرسائیکلوں پر تیس پینتیس نوجوان آگئے اور کرسیاں کم پڑتی چلی گئیں۔میرے لیے بھی یہ حیرانی کی بات تھی کہ اس قدر نوجوان رُکنیت سازی کی تقریب میں شامل ہورہے ہیں۔یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی کہ نوجوانوں کا جھکائو کسی ایک پارٹی کی طرف نہیںبلکہ یہ مختلف سوچوں کے حامل ہیں اور اِن کی وابستگیاں مختلف پارٹیوں کے ساتھ ہیں۔تاہم کسی پارٹی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے اور کسی میں کم۔نوجوانوں کی سیاسی عمل میں دلچسپی،اس ملک کی تقدیر بدل کررکھ دے گی۔نوجوانوں کی شمولیت سے سیاسی عمل کو تازہ خون میسر آئے گا،روایتی سوچ کمزور پڑے گی ،ذات برادری،دھڑے بندے ،دھونس دھاندلی ،خوف اور دیگر تمام فیکٹرز کا آہستہ بہ آہستہ خاتمہ ہوگااور ملک میں صحت مند سیاسی کلچر تقویت پکڑے گااور عوام کی فلاح و بہبود کا عمل بھی شروع ہوگا۔ آمدہ انتخابات میں پنجاب کی سطح پر دیکھیں تو مسلم لیگ ن ،پی ٹی آئی ،کالعد م ٹی ایل پی اور پی پی پی اور آزاد اُمیدواروں کے درمیان معرکہ آرائی ہوگی۔مسلم لیگ ن ،موجودہ لمحات میں اندرونی تقسیم کا شکار دکھائی دیتی ہے،یہ تقسیم دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد اُس وقت پیدا ہوئی جب مریم نواز کو پنجاب کے عوام نے میاں نوازشریف کامتبادل تصور کیا۔مریم نواز شریف کو یہ رُتبہ ملاتو میاں شہباز شریف کی سیاست کو خاصادھچکا لگا۔دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات میں میاں شہبازشریف اور اُن کے بیٹے حمزہ شہباز شریف نے انتخابی مہم چلائی ،اگرچہ اِن کی کارکردگی بُری نہ رہی ،مگر یہ اُس جو ش وخروش کو جنم دینے میں ناکام رہے ،جس کو بعدازاں مریم نواز نے پروان چڑھایا اور پنجاب میں جلسے جلوسوں اور ضمنی انتخابات کے ضمن میں مسلم لیگ ن کی مدہم پڑتی فضا پھر قائم کروادی۔اب اس وقت شہباز شریف ،کسی طورمیاں نواز شریف کے پائوں پڑناچاہتے ہیں(میاں شہبا ز شریف ،میاں نوازشریف کے پائوں پکڑنے کا اظہار خود کرچکے ہیں)اور اُن کو قائل کرناچاہتے ہیںکہ وہ خود بھی الیکشن تک مکمل خاموشی اختیار کریں اور اپنی بیٹی کو بھی خاموش رہنے کی تلقین کریں۔اگر میاں شہباز شریف اپنے بھائی کے پائوں پکڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اگلے انتخابات میں شہباز شریف کی حکمت عملی چلے گی ،یہ جوڑ توڑ کی حکمتِ عملی ہوگی ،اگر اس میں کامیاب نہیں رہتے تو پھر مریم نواز شریف کی گونج حکمتِ عملی طے کرے گی۔دونوں صورتوں میں مسلم لیگ ن میں پھوٹ برقراررہے گی اوراس کا سب سے بڑا فائدہ پنجاب میں پی ٹی آئی کو ہوگا۔جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے تو پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین فیکٹر تقسیم کا باعث بنے گا اور پی ٹی آئی کا رومانس بڑی حد تک ختم ہوچکا ہوگا۔دونوں پارٹیوں کے اندرونی مسائل کا بھرپور فائدہ دوپارٹیاں اُٹھاسکتی ہیں،جس میں سے ایک پی پی پی اور دوسری کالعدم ٹی ایل پی ہے۔مگر یہ اُس وقت ممکن ہوگاجب یہ گلی محلوں کی حد تک بھرپورطریقے سے تنظیم سازی کرنے میں کامیاب رہتی ہیں اور اپنے سیاسی بیانیہ میں جدت لاتی ہیں ۔مگر پنجاب میں اِن مذکورہ پارٹیوں کا طریقہ کار روایتی نوعیت کارہے گا،جبکہ پڑھے لکھے نوجوان اور سیاسی ورکر ،اب سیاسی عمل کو نئی معروضی صورتِ حال کے تناظر میں ڈھلتاہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ملک کی بڑی آبادی ایسی ہے جو سیاسی عمل کا حصہ تو ہے مگر وہ سیاسی نظام سے خوش اور مطمئن نہیں،ہر حلقے میں ایسے اُمیدوار بھی ہوتے ہیں جو ہر بار الیکشن لڑتے ہیں ،چندسو یا چند ہزارووٹ لیتے ہیں ،یوں ہر بار ہارجاتے ہیں ،یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟کیا اِن کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ ہارجائیں گے ؟یقینا اِن کو معلوم ہوتا ہے کہ شکست یقینی ہے ۔ایسے اُمیدواروں کے پیش نظر جو بھی ہو مگر یہ حقیقی تبدیلی کی کاوش کا حصہ بننا چاہتے ہیں،اِن کو سیکڑوں اور ہزاروں ووٹ دینے والے بھی میسر آجاتے ہیں۔پھر یہ کہ درجنوں ایسے لوگ ہوتے ہیں ،جو اچھا خاصا ووٹ بینک رکھتے ہیں ،لیکن الیکشن لڑنے کی طرف دھیان نہیں دیتے ،یہ لوگ گہرے سیاسی شعور کے حامل ہوتے ہیں اور ووٹ کی قدر کا بھی پوراادراک رکھتے ہیں۔ایسے لوگوں کو کوئی انگیج نہیں کرتا۔لیکن دوہزار تئیس کے انتخابات میں جواد احمد کی ’’برابری پارٹی ‘‘ایسے لوگوں کی تلاش میں نکل پڑی ہے۔جواد احمد ملک کے معروف سماجی رہنما ہیں،یہ بہت اچھے سنگر ہیں ،ان کی سیاسی پارٹی کا نیریٹو ،سماجی نظام میں برابری کا ہے ،یہ اُ ن طبقات کو سیاسی عمل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ،جو اس ملک کے خیرخواہ ہیں۔اگر جواد احمد اور اِن کی پارٹی اپنے مقاصدمیں محض تیس سے چالیس فیصد تک بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو ملکی سیاسی نظام میں تبدیلی کی لہر باآسانی محسوس کی جاسکے گی ۔یہ لہر اُس شعور کو پروان چڑھائے گی جو انسانی مساوات کا حامل ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ انتخابی تاریخ میں اُنیس سوپچاسی سے چلی آرہی قباحتوں کا خاتمہ ہو۔انتخابی عمل میں عام لوگوں کی نمائندگی ہو۔زمین سے جڑے ہوئے لوگ ہی زمین زادوں کے دُکھوں کا مداواکرسکتے ہیں۔جواد احمد کے گیتوں نے دلوں کے تاروں کو ہمیشہ چھوا ہے ،اب اُن کے سیاسی نعرے دلوں میں سماکر ایک نئے خواب کی سحرانگیزی کا سماں پیدا کریں گے۔