پاکستان ایک عظیم عطیہ خداوندی ہے ۔یہ بلا شک و شبہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ عظیم تحفہ ہے ۔یہ عظیم نعمت رمضان المبارک کی 27ویں شب کو ہمیں عطا ہوئی۔اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کا سب سے احسن طریقہ یہ ہے کہ ہم اسکے مستقبل اور اسکے استحکام کے متعلق غوروفکر کریں اور اسکے استحکام کے لیے عمل کوششیں بروئے کار لائیں ۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے قیام کی بنیاد اسلام ہے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کا مطالبہ کرنے والے افراد میں مذہب کے علاوہ کوئی قدر مشترک نہ تھی۔نہ رنگ،نہ نسل نہ زبان ۔بعض علاقوں کی ثقافت میں بہت ذیادہ واضح فرق تھا۔بنگال اور پنجاب کے درمیان جغرافیائی فرق بھی واضح تھا۔لیکن ان سب کے درمیان مشترکہ اساس صرف اسلام تھی۔یہ ملک اسی اساس پر حاصل کیا گیا تھا۔کہ یہاں پر ایک اسلامی فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے ۔ہندوستان پر مسلمانوں نے 800سال حکومت کی تھی اور مسلم رہنما اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہندو ایک تنگ نظر اور متعصب قوم ہیں ان کے ساتھ مسلمانوں کا نباہ ممکن نہ ہو سکے گا۔تنظیم کے اعتبارسے بھی مسلمان قدرے کمزور تھے ۔مسلمانوں کی تنظیمی نو عیت اس طرح قابل رشک نہ تھی جس طرح ہندئوں کی بعض تنظیمات منظم تھیں۔1947میں ہونے والی عظیم ہجرت بھی اس حقیقت کا مظہر تھی کہ بلاتفریق رنگ و نسل صرف اسلام کے نام پر یہ ہجرت کی گئی تھی اور انکے پیش نظر بھی محض یہی بات تھی کہ اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے یہاں پر عملی کاوشیں کی جائیں گی۔پاکستان کا قیام اس نظریہ کا ایک عملی اظہار تھا۔اس حقیقت کا اظہار آج سے 1400سال قبل قرآن مجید میں بھی ہو چکا تھاکہ مسلمان اپنی نوعیت اور شناخت کے اعتبار سے دیگر تمام اقوام سے مختلف ہیں۔تحریک پاکستان کے شروع دن سے لے کر آخر تک نوجوان ہی قائد اعظم کی تحریک کا ہر اول دستہ رہے ۔اور نوجوان ہی قائد اعظم کی نگاہ کا مرکز رہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے 17نومبر1945میں ایڈورڈکالج پشاور میں نوجوانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تمام غلط فہمیاں دور کرتے ہوئے فرمایا مسلمانوں اور ہندئوں میں مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہمارا کلچر ہندئوں کے کلچر سے بالکل مختلف ہے ۔ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں مستقل رہنمائی کرتا ہے ۔جس طرح کے اقبال نے مسلمانوں کی الگ شناخت اور دیگراقوام کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا۔ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم میں رسول ہاشمی آج وطن عزیز ان گنت مسائل سے دو چار ہے ۔بے شمار داخلی اور خارجی مسائل پہاڑ کی طرح سامنے کھڑے ہیں ۔امن و امان اور ملکی استحکام بھی مختلف حوالوں سے غور و فکر اوسوچ بچار کے متقاضی ہیں۔ہر محب وطن پاکستانی اپنے ملک میں استحکام اور مضبوطی دیکھنا چاہتا ہے ۔ہم نے سوچنا یہ ہے کہ پاکستان کا استحکام کیسے ممکن ہے اور نوجوان اس حوالہ سے موثر کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں ۔یہ سوال ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ کہ پاکستان کا استحکام کیسے ممکن ہے اور اندرونی اور بیرونی طور پر پاکستان کے استحکام کو کون کون سے خطرات درپیش ہیں ۔14اگست 1947کو حصول آزادی کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر مشتمل ایک وفاق تشکیل دیا گیا تھا۔ 1935کے ایکٹ میں ترمیم کر کے اسکو بھی دستور پاکستان کی جگہ پر ایک ایکٹ کے طور پر نافذ کر دیا گیا۔اسی طرح کچھ عرصہ کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہوئی جس نے پاکستان کے مستقبل کے خدوخال کافی حد تک واضح کر دیئے ۔1956کا دستور اس وقت کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا ۔لیکن یہ دستور بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا ۔اسی عرصہ میں ایوب خان کی طویل آمریت نے ملک کی چولیں ہلادیں ۔1971کے سانحہ نے قائد اعظم کے بنایا ہوا پاکستان کو دو لخت کر دیا ۔اس دلخراش سانحہ کے بعدپوری قوم ایک مرتبہ پھر اکٹھی ہوئی۔ملک کی سیاسی قیادت نے سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک متفقہ دستور کی منظوری کے لئے کام شروع کیا اور بالآخر 1973کی اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک آئین منظور کیا ۔جس کاکریڈیٹ بجا طور پر اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کے تمام سیاسی قائدین کو جاتا ہے ،جنہوں نے اپنی کرشماتی شخصیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کی بدولت ملک پاکستان کو ایک متفقہ دستور عطا کیا۔ میری دانست میں ملکی استحکا م کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ گرتی ہوئی معیشت سے ہے ۔اس وقت دنیا کے حالات تبدیل ہو چکے ہیں ۔اب کمزور معیشت والی مملکتیں دنیا میں باعزت مقام کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتیں ۔اس لیے ہمیں مضبوط معاشی پاکستان بنانے کی ضرورت ہے کہ جس سے ملکی معیشت میں استحکا م آئے ۔ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے ۔اس وقت پورا ملک ایک معاشی جمود کا شکار ہے ۔سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو چھپائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں منجمد ہیں ۔حکومت کی غلط پالیسیوں کی بدولت غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔اگر ملکی استحکا م کو یقینی بنانا ہے تو ہمیں اپنی معاشی پالیسیوں کی سمت درست کرنا ہو گی۔ نوجوان اس ملک کا غیر معمولی اثاثہ ہیں ۔پاکستان دنیا کی ان چند قوموں میں سے ایک ہے جس کی آبادی کا بہت بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔لیکن بد قسمتی سے نوجوان اس وقت بے سمتی کا شکار ہیں ۔ان کو کوئی واضح لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔وہ ایک نصب العین سے محروم ہیں ۔انکی کوئی سمت متعین نہیں ہے ۔جب ملکی آبادی کی اتنی بڑی تعداد بے سمت ہو گی تو اس وقت ان کی ترقی کا خواب دیکھنا اور اس کے استحکام کو سوچنا دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ ملکی استحکام اس کے داخلی و خارجی مسائل سے بھی وابستہ ہے ۔داخلی طور پر درپیش چیلنج یہ ہے کہ اس کے رہنے والے الگ الگ قبیلوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، رنگ و نسل اور ذات پات کی تفریق کے پنجے بری طرح گاڑے جا چکے ہیں۔فرقہ وارانہ شدت پسندی اس پر مستزاد ہے ۔پاکستان میں صرف ایک خاص قوم یا نسل کے لوگ نہیں رہتے بلکہ ہر رنگ،نسل اور زبان بولنے والے لوگ رہائش پزیر ہیں ۔انکی ایک اکھٹے ہونے کی واحد وجہ مذہب ہے ۔ملکی استحکام کے لیے نوجوانوں کو اسلامی نصب العین پر جمع کرنا ہو گا۔لیکن اسی کے ساتھ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ملک کو مذہبی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے سے بچانے کی کوشش بھی کرناہوگی۔اس میں ہمارے نوجوان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ہمیں بطور قوم اس بات کا ادراک رکھنا چاہیے کہ مذہبی جنونیت نے ہمارے معاشرے کو برداشت اور تحمل سے محروم کر دیا ہے ۔یہ جنونیت صرف مذہب تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں ۔ہمیں بطور قوم اس بات کا اہتمام کرنا ہو گا کہ ہر اپنے نوجوانوں کو ایک واضح منزل کا پتہ دیں ۔ملکی مذہبی و سیاسی قیادت کو اس حوالہ سے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا تا کہ ملکی استحکام کے تقاضے پورے ہو سکیں۔