حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف کشف المحجوب کا مطالعہ کرتے ہوئے دل چاہا کہ قارئین کو بھی سیّد ہجویرؒ کی مجلس میں لے چلوں‘معجزہ و کرامت کی بحث جاری ہے اور حضرت فرما رہے ہیں۔ ’’یہ ایسی باتیں ہیں جو انسان کے وہم و گمان سے بالاتر ہیں اور اسی کے موافق مضامین احادیث صحیحہ میں حضور ﷺ سے وارد ہیں۔چنانچہ حدیث الغار کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے کہ ایک دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بارگاہ رسالت میں عرض گزارہوئے کہ حضور !ہمیں عجائبات اممِِ ماضیہ کا کچھ فرمائیں۔‘‘ ’’ حضور ﷺ نے فرمایا:تم سے قبل تین آدمی کہیں جا رہے تھے ۔جب شام ہو گئی تو شب باشی کی غرض سے کسی غار کی تلاش کی اور رات وہاں سو گئے۔کچھ رات گزری تھی کہ اچانک ایک بھاری پتھر اس غار کے منہ پر لڑھک آیا اور اس سے غار کا منہ بند ہو گیا۔یہ تینوں سخت پریشان ہوئے۔ایک دوسرے سے کہنے لگے‘اب یہاں سے ہمیں کوئی چیز ایسی نہیں جو نجات دلا سکے‘سوا اس کے کہ اپنی عمر کے کسی نیک کام کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کر کے اسے نجات کا ذریعہ بنایا جائے۔‘‘ ’’ایک ان میں سے بولا:میرے ماں باپ تھے اور میں مال و منال دنیاوی سے کچھ نہیں رکھتا تھا۔بجز ایک بکری کے‘تو میں ہمیشہ اس بکری کا دودھ انہیں پلا دیتا تھا اور لکڑیوںکا گٹھا جو جنگل سے لاتا اسے فروخت کر کے اس کی قیمت سے سب کی پرورش کرتا‘ایک روز مجھے دیر ہو گئی‘ جب میں آیا تو میں نے دیکھا کہ والدین سو چکے ہیں‘میں نے بکری کا دودھ نکال کر اس میں روٹی بھگوئی اور ان کے سونے کی جگہ آ کر ان کے پیروں کی طرف وہ پیالہ لئے کھڑا رہا اور خود بھی کچھ نہ کھایا کہ جب تک انہیں نہ کھلائوں میں کیسے کھا لوں۔ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتے کرتے صبح ہو گئی۔ جب وہ بیدار ہوئے اور کھانا کھا لیا تو میں بیٹھا۔تو میں عرض کرتا ہوں الٰہی!اگر میں اس خدمت میں سچا ہوں تو مجھ پر کشادگی فرما اور میری فریاد رسی کر۔حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ پتھر اس توسل کی برکت سے ہلا اور کچھ کشادگی ہو گئی۔‘‘ ’’دوسرا کہنے لگا:میرے چچا کی لڑکی حسینہ جمیلہ تھی جس پر میں فریفتہ تھا۔میں اسے اپنی طرف بلاتا تو وہ رجوع نہ ہوتی تھی‘حتیٰ کہ میں نے اسے ایک سو بیس دینار بھیجے کہ وہ ایک شب میرے ساتھ خلوت کرے۔جب وہ میرے پاس آ گئی تو میرے دل میں خوف خدا پیدا ہوا میں نے اس سے پرہیز رکھا اور وہ سنہری دینار بھی اسے دے دیے۔یہ کہہ کر اس نے بارگاہ متعال میں عرض کی:الٰہی!اگر میں اس بات میں سچا ہوں تو مجھ پر اس پتھر سے فراخی عطا کر۔حضورﷺ فرماتے ہیں کہ وہ پتھر یک لخت ہلا اور غار پہلے سے کچھ زیادہ فراخ ہو گیا‘ مگر ابھی اتنا فراخ نہیں ہوا تھا کہ آسانی سے باہر نکل سکیں۔ ’’تیسرا بولا کہ میرے پاس مزدور کام کرتے تھے۔دن گزرنے پر سب اپنی اپنی مزدوریاں لے جاتے تھے۔ایک دن ایک مزدور غائب ہو گیا اور اس کی مزدوری میرے پاس رہ گئی۔میں نے اس سے گوسپند خرید لیا۔دوسرے سال وہ دو گوسپند ہو گئے۔پھر وہ تیسرے سال چار ہو گئے۔اسی طرح ہر سال بڑھتے رہے۔جب چند سال گزر گئے تو یہ ایک مال عظیم بن گیا کہ وہ مزدور بھی آ گیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کی مزدوری کی تھی‘شاید آپ کو بھی یاد ہو‘اب مجھے اس کی ضرورت ہے مجھے دے دو۔میں نے کہا جائو وہ تمام گوسپند اور مال ملِک تیرا ہی ہے‘تو لے لے۔تو مزدور کہنے لگا:کیا آپ کو ناگوار گزرا۔میں نے کہا نہیں درحقیقت وہ سب مال تیرا ہے‘میں سچ کہہ رہا ہوں۔چنانچہ وہ سب مال میں نے اسے دے دیا۔الٰہی !اگر میرا یہ بیان صحیح ہے تو مجھے اس بلا سے نجات دے۔حضور ﷺ نے فرمایا وہ پتھر در غار سے ہلا اور نیچے گر گیا اور یہ تینوں آدمی وہاں سے باہر آ گئے۔‘‘ یہ حال بھی خلافِ عادت تھا۔(اور اسے بھی کرامت کہا جائے گا) حضورﷺ سے ایک حدیث جریح راہب کی ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:طفولیت کے ایام رضاعت میں اپنے گہوارہ میں کسی نے بات نہ کی مگر تین آدمیوں نے: ایک عیسیٰ علیہ السلام نے جس کا تمہیں علم ہے۔ دوسرا بنی اسرائیل کا ایک راہب جس کا نام جریح مجتہد تھا۔اس کی والدہ ایک گہوارہ رکھتی تھی۔ایک دن اپنے بیٹے کو دیکھنے آئی۔جریح اپنے صومعہ میں مصروف نماز تھے۔دروازہ نہ کھولا‘دوسرے روز پھر ایسا ہی ہوا‘تیسرے روز آئیں‘ اس دن بھی صومعہ نہ کھولا۔چوتھے روز بھی اسی طرح آئیں اور صومعہ نہ کھولا۔تو ان کی والدہ نے تنگ آ کر کہا:الٰہی !اسے رسوا کر ‘میرا بیٹا ہو کر میرے حق مادریت کی بھی پرواہ نہیں کرتا‘یعنی میرے حق کے معاملہ میں اس کی گرفت کر۔اس زمانہ میں ایک بدچلن عورت تھی‘اس نے کسی گروہ سے وعدہ کیا کہ میں جریح کو گمراہ کر دوں گی۔چنانچہ وہ صومعہ یعنی عبادت خانۂ جریح میں داخل ہو گئی مگر جریح نے اس کی طرف اصلاً التفات نہ کیا۔ اس نے کسی چرواہے کے ساتھ حرام فعل کرایا اور حاملہ ہو گئی۔جب بیٹا ہوا تو اس نے کہہ دیا کہ یہ بچہ جریح کا ہے۔لوگوں نے جریح کی طرف انبوہ کثیرہ کے ساتھ دھاوا بول دیا حتیٰ کہ انہیں گرفتار کر کے عدالتِ سلطانی میں پیش کر دیا۔جب پیشی ہوئی تو جریح نے اس کے گود کے بچے سے فرمایا:اے بچے!تیرا باپ کون ہے؟وہ شیر خوار مہدِ مادر میں گویا ہوا۔ ’’اے جریح میری والدہ تجھ پر جھوٹا اتہام لگا رہی ہے‘میرا باپ ایک چرواہا ہے۔‘‘ ’’تیسرا مہد مادر میں بولنے والا ایک عورت کا شیر خوار بچہ ہے جس کا یہ واقعہ ہے کہ: ایک عورت اپنی گود میں بچہ لئے اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھی تھی کہ ایک سوار حسین و جمیل ‘جوان اور خوش پوشاک ادھر سے گزرا۔عورت کہنے لگی:الٰہی !میرے اس بچے کو اس سوار جیسا رعنا کر دے۔تو بچہ ماں کی گود سے کہنے لگا:الٰہی !مجھے اس اس سوار جیسا نہ کر۔جب ایک مدت گزر گئی تو ایک عورت بدنام ادھر سے گزری۔عورت کہنے لگی:الٰہی !میرے بچے کو اس عورت جیسا بدنام نہ کرنا۔تو بچہ کہنے لگا:الٰہی !مجھے مثل اس عورت کے کردے۔ بچہ کی ماں متعجب ہوئی اور کہنے لگی اس بچے نے ایسی دعا کیوں کی۔بچہ کہنے لگا‘یہ دعا میں نے اس لئے کی کہ وہ سوار ظالم و جابر لوگوں میں سے تھا اور یہ عورت نہایت نیک خصلت ہے مگر لوگ اسے بُرا کہتے ہیں اور عوام جانتے نہیں‘میں نہیں چاہتا کہ میں ظالم و جابر بنوں۔‘‘ سیّد ہجویرؒ مخدوم امم مرقداوپیر سنجرر احرم (اقبالؔ)