ہماری آنکھ میں برسات چھوڑ جاتا ہے یہ ہجر اپنی علامات چھوڑ جاتا ہے یہ دن کا ساتھ بھی بالکل تمہارے جیسا ہے کہ روز جاتے ہوئے رات چھوڑ جااتا ہے احساس بڑی ظالم شے ہے۔ آپ اسے آگہی کہہ یا کچھ اور، اپنے بس میں کیا ہے کچھ بھی نہیں۔کوئی ضروری نہیں کہ جو آپ سوچیں وہ لکھ پائیں یا پھر جو آپ لکھ پائیں وہ چھپ بھی سکے۔ کچھ حدود و قیود میں آپ کو رہنا پڑتا ہے کچھ اندیشے اور کچھ امکان تو ہر کسی کے ذہن و دل میں انگڑائی لیتے ہیں پھر بندش نیا در کھولتی ہے کہ اک بات بتانی ہے اور ایک بات چھپانی ہے۔ اب اپنے قارئین کو کچھ تو باور کروانا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ اپنی محسوسات کی تجسیم لفظوں میں تو کی جا سکتی ہے کچھ آثار اور حالات چغلی تو کھاتے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ حمزہ کی ضمانتیں ہو گئی ہیں۔ قید کے دو سال اس کی ساری سرمایہ کاری ہے آپ وقت کا تعین کریں تو پتہ چل جائے گا کہ ایک اور ایک گیارہ کیا ہوتے ہیں اور کون نو دو گیارہ کے سٹیٹس پر آ گیا ہے۔ کچھ ضرور ہے جس کی پردہ داری ہے: یہ مسائل تصوف پہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا آپ سمجھ گئے ہونگے کہ بات بنتی نہیں ہے بادہ وہ ساغر کہے بغیر کچھ حقیقتیں ہیں جنہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ جانتا ہے کہ خان صاحب سے ہماری کیا کدورت۔ہم تو بڑے چائو سے انہیں لائے تھے ۔ہماری ساری ہمدردیاں اور تمنائیں اور آرزوئیں ان کے ساتھ وابستہ تھیں میری ہی کیا ہر مخلص اور محب وطن شخص کی امنگیں ایک دیانتدار آدمی سے جڑی ہوئی تھیں۔آخر اردگرد کے لوگ خان صاحب کو کیوں نہیں ۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اچکے کھیت ہی لوٹ چکے۔ آخر یہ سوچنے کا مقام تو ہے کہا کہ موجودہ حکومت ساری ضمنی سیٹیں ہار گئی۔ آپ لاکھ دلائل دیتے رہیں کہ یہ آپ کی دیانتداری کے باعث ہوا اور فیئر الیکشن کی دلیل ہے مگر یہ جواز بھی مضحکہ خیز بن گیا کہ این اے 75کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اب کہا گیا کہ 19فروری کو صاف شفاف اور منصفانہ الیکشن نہیں ہوا یعنی شفاف چلی اور صاف چلی کا بیانیہ پٹ گیا یہ سب کچھ ایک سانحہ سے کم نہیں راشد نور نے کراچی سے شعر بھیجا: ثبوت چیخ رہے تھے تلاش ہونے تک کہ سانحہ نہ رکا دلخراش ہونے تک ایسے لگتا ہے کوئی جنگ سی چھڑ گئی ہے ۔دوبدو لڑائی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ عظمیٰ بخاری نے فردوس عاشق اعوان کی ویڈیو ریلیز کر دی جس میں وہ کسی سے رانا ثناء اللہ کو کڑکی میں لانے کی بات کر رہی ہیں اس پر فردوش عاشق اعوان نے عظمیٰ بخاری کو ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا ہے جبکہ عظمیٰ بخاری مزید آگ بگولہ ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی والے آپس میں ہی الجھ رہے۔ فیاض الحسن چوہان نے لیاری والوں کو اور کشمیریوں کو ناراض کر لیا۔لیاری والوں نے تو معافی کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔کہنے کا مطلب یہ کہ کام اور مزاج بگڑتے چلے جا رہے ہیں بلکہ بگڑ چکے ہیں: تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی خان صاحب کو ٹھنڈے دل سے تنہائی میں سوچنا چاہیے کہ آخر عوام نے انہیں ردکیوں کیا۔ کیا ان کے دل میں نہیں آئی کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ کیا کیا وعدے کئے تھے اور دعوے بھی۔ پھر اڑھائی سال ہونے پر بھی عمل کی نوبت نہیں آئی۔ آپ کے وہ 90دن پھر ایک سال پھر تین سال اور اب تو آپ چاہتے ہیں کہ 15بیس سال کے لئے آپ ہی رہیں تو کچھ منظر کھلے۔ ذرا اور آگے چلتے ہیں کہ آپ کے بیانیے کا لب لباب تھا کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ اور چوروں ڈاکوئوں سے مال مسروقہ کی برآمدگی اور ان کو سزائیں۔یہاں بھی آپ بری طرح فیل ہوئے۔ آپ کی مٹھی سے کبوتر ہی نہیں اڑے آپ کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑ گئے۔ آخر یہ نوبت کیوں آئی کہ مریم نواز کہنے کے قابل ہوئی کہ ان کے والد نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کو نوشہرہ میں گھس کر مارا۔ جواب آپ یہ دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی نے مار تو پھر کیسے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ جسٹس وجیہہ جیسے ہیرے یاد آتے ہیں۔ ہارے ہائے برے اور مفاد پرس پیرا شوٹرز نے پی ٹی آئی کے مخلص اور جان نثار قسم کے فائونڈر کو نکال باہر کیا۔ نظریہ ضرورت میں خیر اور بھلائی ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ دھاندلی کے خلاف اٹھے اور آپ کو دھاندلی نے ہی آن لیا بہرحال زاہد و متقی تو سکون سے ہیں: سب حسیں ہیں زاہدوں کو ناپسند اب کوئی حور آئے گی ان کے لئے اب پی ٹی آئی کے ارباب بست و کشاد کو چاہیے کہ اپنے پروں پر اڑنے کی کوشش کریں۔ بات بالکل سامنے کی ہے کہ عوام مہنگائی کے مارے ہوئے ہیں۔آپ خود ہی فرمائیے کہ وہ اپنے غصے کا اظہار کیسے کریں۔ انہیں کون سال مہنگائی الائونس مل جاتا ہے پہلے خان صاحب تبدیلی چاہتے تھے ا۔ دیکھیے 18مارچ کو میدان دوبارہ سجے حکومت کی نااہلی کے باعث کروڑوں روپے کا نقصان تو ہو چکا۔حیرت کی بات یہ کہ خان صاحب کے وسیم اکرم پلس اب بھی اس سارے مسئلے کو سیاسی الزامات کہہ رہے ہیں۔ فیاض الحسن نے کہا ہے کہ 18مارچ کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ان کی بات درست ہے کہ پانی ذرا زیادہ ہو گیا تھا ازہر درانی یاد آئے: گوالا لاکھ کھائے جائے قسمیں مگر اس دودھ میں پانی بہت ہے بہرحال حالات کچھ اچھے نہیں ہیں روز افزوں مہنگائی ہی نہیں آئے روز کوئی نہ کوئی نیا ایشو کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہی جو نوجوان شاعر عبدالجبار ادا نے کہا ہے کہ: ایک سگریٹ سے لگاتا گیا دو چار سگریٹ یوں ترے ہجر کو چولہے پہ چڑھائے رکھا عوام بھی مسلسل ایک اذیت میں جکڑے ہوئے ہیں۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا مجھے تو اپنی پڑی ہے کہ پچھلے ماہ گیس کا بل 12000روپے تھا اور اب کے 11000۔کس کافر کو کچھ اور سوجھتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اٹھارہ ہزار تنخواہ لیتے ہیں اور بل بھی اٹھارہ ہزار کے ہیں کہ کوئی مبالغہ نہیں یہ اخباروں میں اور سوشل میڈیا پر چیخ و پکار سنی جا رہی ہے۔ چلیے آپ کے لئے ایک شعر: ہاتھ رکھنا پڑا سینے پہ ہمیں بھی آخر دل کہاں رہتا ہے دلدار تک آتے آتے