تو کیا ہوا، صدیق کی فہیم بیٹی ہر طرح کے حالات سے پوری طرح باخبر بھی تھی اور ان سے نمٹنے کو ہرطرح سے تیار بھی، فی الفور کمر بند پھاڑ کے انھوں نے کھانے کی پوٹلی تیار کر دی۔ یہ کھانا قریشیوں کے ستائے مہاجروں اور مسافروں تک پہنچنا تھا، سو پہنچا۔ اقبال نے کہا تھا، سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی۔ ادھر پیچھے مدینے میں، قیامت کی اس گھڑی میں، بسترِ رسول پر چھوٹے عم زاد لیٹ گئے تھے۔ رسول کے راحت رساں چچا ابوطالب کے جری بیٹے علیؓ۔ کیا واقعی یہ اس رات لیٹنے کا ایک عام بستر ہی تھا؟ شاید ہاں ، شاید نہیں۔ شاید مقتل ، شاید موت کا ساماں۔ کیا ابوطالب کا وہ بیٹا نہ جانتا تھا کہ یہ ان کی آخری نیند بھی ہو سکتی تھی؟ کتنے بے نصیب ہیں جو ایمان کے ہمالیہ کے مقابل بونی عقل لا کھڑی کرتے ہیں۔کوئی مقابلہ بھی تو ہو! آج لائیں اور سلائیں موت کے اس بستر پر وہ اپنی حرماں نصیب عقل کو۔ میت نہ اٹھ جائے گی ایمان سے عاری عقل کی۔ آخری تجزیئے میں ، یہ ایمان ہے ، جو آگ میں کودتا، نیل میں پھاندتا، چھری تلے مسکراتا اور موت کے بستر پر ہنس کے لیٹ جاتا ہے۔ حیدرِ کرار یہ جانتے تھے کہ موت گھات میں ہے مگر وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ یہ نیند زندگی کی آخری نیند بھی ہو تو غم نہیں۔ یوں بھی ہو تو اس سے بڑا انعام ہی کیا ہو سکتا ہے؟ جی ہاں ،جان جائے تو بھی لا ضیر ، لا ضیر۔ حرج ہی کیا ، مضائقہ ہی کیا! ادھر آگے شاہراہِ ہجرت کے آخری کنارے پر ،بلدہ طیبہ ، سر زمینِ پاک میں منور دلوں والی وہ پاکیزہ قوم منتظر کھڑی تھی، قرآن نے جن کی حبِ رسول اور ایثارِ مقبول کی گواہی دی۔ کیسے نگینے لوگ! فرمایا: ''ہجرت کرکے آنے والوں سے انھیں بڑی محبت ہے۔ مہاجرین کو کچھ دیا جائے تو کبھی ان کے دل گھٹن کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ مہاجرین پر خود کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں۔'' نفرتوں ، عداوتوں ، ظلمتوں اور بغاوتوں کے مارے یثربی آج دلوں میں حبِ رسول کے چراغ جلائے انتظار کے علم اٹھائے چشم براہ کھڑے تھے۔ دیکھا کس طرح دو قدموں کے فاصلے نے یثربیوں کو مدنی اور یثرب کو مدینہ کر دیا۔ اللہ اکبر کیا نظر تھی کہ مردوں کو مسیحا کر دیا۔ وہ بصد شوق اور بہزار اشتیاق آنے والے معززین کے منتظر کھڑے تھے۔ والہانہ شوق سے وہ اس نورِ مبین کے منتظر تھے کہ آنے والا جو ان کے لیے لانے والا تھا۔ کیا تحفے آنے والے تھے، قرآن کے یاقوت ، حدیث کے موتی۔ ہر صبح بیرونِ شہر آ کیدیدہ و دل فرشِ راہ کیے وہ ٹھہر جاتے اور دلوں پر شام اترتی تو اگلے دن پھرآنے کے لیے لوٹ جاتے۔ کیسے لوگ! خدا جن کو محبت سے جھانک کے دیکھے، بخدا ایسے لوگ اور آج ! چودہ سو چالیس ہجری میں، اس واقعہ کے ٹھیک پندرہ ہزار سال بعد۔ عین وہی دن ، عین وہی یومِ امت یا یومِ ہجرت، ہم جیسے قطعی دوسری طرح کے لوگوں پر طلوع ہو رہا ہے۔ آہ! کیسے دن ، کن لوگوں پر طلوع ہو رہے ہیں۔ آسمان سوچتا تو ہوگا، زمیں دیکھتی تو ہوگی؟ آخر کیوں ہم بالکل بھی ان جیسے نہ ہو سکے، کہ جنھوں نے رسول رحمت کا استقبال کیا تھا۔ وہ ایک مبارک اسم پر مجتمع ہو گئے تھے تو ہمیں ہماری خواہشات و ترغیبات نے ٹکڑوں بلکہ ٹکڑیوں میں بانٹ ڈالا۔ افسوس ، صد افسوس! اچھا، ان کے بارے قرآن بولتا تھا، کیا ہمارے بارے قرآن کچھ نہیں کہتا؟ کیوں نہیں ، قیامت تک رہنمائی دیتا قرآن آج کے مومنوں پر بھی تبصرہ فرماتاہے: '' ان میں سے ایک گروہ خود اپنے آپ پر ظلم ڈھانے والا ہے، کچھ میانہ روی شعار کرنے والے ہیں اور کچھ تو بتوفیقِ ایزدی نیکی کے معاملے میں سب پر سبقت لے جانے والے بھی۔ آہ! امت کا طاقتور اجتماع آج راستوں پر اڑتی دھول کی طرح منتشر اور بے وقعت ہو چکا۔ چنانچہ ظلم و عدوان کے ہرکارے فرزندان ِ توحید پر ٹوٹ پڑے۔ سرکار کے فرمان کے مطابق جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ انھوں نے ان کے گھر بار اور در و دیار با آسانی قبضے میں لے لیے۔عالم یہ ہے کہ امت کا سب کچھ اغیار پر آج حلال ہو چکا۔ تو کیاآج یہ امت ایک بار پھر سے اس ہجرت کو دہرا بھی سکتی ہے؟ تجدید عہد اور تحدیث عزم کا ارادہ باندھ بھی سکتی ہے؟ کیا پدرم ما سلطان بود کی روش چھوڑ کے اور اسلاف کے تذکروں کے سامنے ناسمجھی سے جھومنے کے علاوہ کوئی جاندار کردار پیش کر بھی سکتی ہے؟ کیا اپنی درخشاں تاریخ کے بیکراں سمندر سے یہ عبرت و سبق کے چند گھونٹ پینے کا موقع نکال بھی سکتی ہے؟ کیا ہمارے بڑے اور بیٹے ، اس شب بستر ِرسول پر موت کے سائے میںسوئے شجیع و شجاع سیدنا علیؓ سے نبی کی حرمت و حمیت پہ مر مٹنے کا سبق سیکھ بھی سکتے ہیں؟ کیا ہماری بناتِ امت سیدہ اسما کی قلیل وسائل کے جمیل استعمال جیسی ذہانت سے نصرت دین کے لیے کچھ مثبت قدریں مرتب کر بھی سکتی ہیں؟ سال بدلنے سے کیا ہمارے غافلوں کے حال بدل سکتے ہیں؟ ایسے کہ باہم بیٹھ کے وہ حاصل و وصول کا بھی کچھ حساب لگائیں ، کہ آخر ہم میں سے ہر شخص کا اپنے لیے ،اپنے اہلِ خانہ کے لیے اور اس امت کے لیے کیا کنڑی بیوشن ہے؟ یہ تدبر کا مقام ہے مگر صرف سوچنے والوں کے لیے۔ ورنہ تو مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔ نادان تو یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ ہجرت تاریخ کا ایک واقعہ تھی ، واقعہ ، جو ہوچکا، جو گزر چکا۔ بیتی باتوں کا اب کیا مذکور ، رات گئی بات گئی۔ لیکن ہم تو دائم چشمہ وحی سے اپنے زمانے سیراب کرتے رہیں گے۔ سیرتِ پر انوار کے قصوں سے ہدایت کی راہیں تراشتے اور تلاشتے رہیں گے۔ ان شااللہ ، اسی چشمہ صافی سے ہمارے یقین وایمان کے خشک سوتے پھر سے پھوٹ پڑیں گے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ یہی فرمان ِ الٰہی بھی ہے۔ ''اے نبی ! انھیں یہ قصے سنائیے کہ شاید یہ تدبر شعار کرسکیں۔'' اور یہ بھی فرمایا، ''اگر تم خدا کے رسول کی مدد کا بیڑا نہیں اٹھاتے تو نہ اٹھاو، خدا تو اس وقت بھی اپنے نبی کی نصرت فرما چکا کہ جب کفار نے اسے یوں گھر سے نکال دیا تھا کہ وہ محض دو ہی لوگ تھے ، اور ان دو میں سے دوسرا خدا کا رسول تھا۔ جب وہ غارِ ثور میں پناہ لیے بیٹھے تھے ،تو اس وقت رسولِ خدا نے اپنے ساتھی سے یہ کہا ، غم نہ کرو ، خدا ہمارے ساتھ ہے۔ خدا نے ان پر سکینت و سکون کا نزول فرما دیا۔ پھر نظر نہ آنے والے لشکروں سے ان کی مدد فرمائی۔بالآخر کافروں کی بات پست کی اور اللہ ہی کا کلمہ سر بلند رہنے والا ہے۔ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔(ختم شد)