کک KiKجرمنی کا ایک مقبول گارمنٹس برینڈ ہے یہ جرمن زبان میں سٹور کے نام کا مخفف ہے جس کا انگریزی ترجمہ کچھ یوں کر سکتے ہیں کسٹمر از کنگ ‘گاہک ہی بادشاہ ہے۔پورے یورپ میں کک تین ہزار سے زائد سٹور گاہکوں کو بہترین گارمنٹس ڈسکائونٹ ریٹ پر دے رہے ہیں۔ مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لئے گارمنٹس کا سامان کک‘ بنگلہ دیش چین اور پاکستان سے تیار کرواتا ہے۔ جرمنی کے اس مشہور گارمنٹس برینڈ کے شاندار گلیمرس سٹوروں پر بلدیہ ٹائون کی راکھ ہو جانے والی فیکٹری کا مال گورے بڑے ذوق شوق سے خریدتے رہے ہیں۔ بلدیہ ٹائون فیکٹری کے مال کی سب سے بڑی خریدار جرمنی کی KiKکمپنی تھی۔ آگ لگنے کے اندوہناک حادثے کی خبر جلد ہی جنگل میں آگ کی طرح بین الاقوامی میڈیا پر بھی پھیل گئی۔ جرمنی کے دارالحکومت بون میں واقع کک کے ہیڈ آفس میں اس کمپنی کے سی ای او پیٹرک زین نے یہ خبر انتہائی بوجھل دل سے سنی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ انٹرنیشنل لیبر لاء کے مطابق اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے ورکروں کے لواحقین کو کمپنی کی طرف سے تلافی کی رقم انہیں ہی ادا کرنا پڑے گی۔ کیونکہ وہ علی انٹر پرائزز گارمنٹس فیکٹری کے مال کے سب سے بڑے خریدار تھے۔ کسی بھی فیکٹری کے مال کی خریدار کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہاں کام کرنے والے ورکروں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور یہ کہ انٹرنیشنل لاء کے مطابق فیکٹری میں کسی حادثے کی صورت باہر کو کھلنے والے دروازے اس طرح رکھے جائیں کہ حادثے کی صورت مزدور آسانی سے اپنی جان بچا کر نکل سکیں۔ KiK کے سی ای او کی اس وقت سب سے بڑی پریشانی یہی تھی کیونکہ 260ورکروں کا جل کر مر جانا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ انہیں اس حوالے سے قانونی مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا تھا اور جو انہیں کرنا پڑا۔KiK نے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے قیمتی جانوں پر افسوس کا اظہار کیا اور لواحقین کے لئے خطیر رقم مختص کی جو ان کے خاندانوں کو ملنا تھی۔ متاثرین کو رقم دینے کا سلسلہ شروع بھی ہوا لیکن اس وقت تک اس سانحے پر جے آئی ٹی کی رپورٹ نے یہ ثابت کر دیا کہ فیکٹری میںلگنے والی آگ حادثاتی نہیں تھی بلکہ یہ دہشت گردی تھی۔ اس کو جواز بنا کر جرمنی کی کمپنی نے باقی رقم روک لی۔ اس سانحے کے چار متاثرین جن میں سے تین لواحقین اور ایک زندہ بچ جانے والا ورکر تھا۔ انہوں نے کک پر مقدمہ کیا کہ جرمن سٹور کی طرف سے تلافی کی رقم ان کا حق ہے کیونکہ ورکروں کی زیادہ اموات اس لئے ہوئیں کہ ایگزٹ کے دروازے بند تھے اور کھڑکیوں پر لوہے کی آہنی سلاخیں نصب تھیں پھر یہ ڈویلپمنٹ ہوئی کہ کک نے پاکستانی 60کروڑ روپے ادا کئے اور ہر متاثرہ خاندان کو 21لاکھ کی رقم ادا ہونا تھی۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے جب چوروں ڈاکوئوں اور طفیلیوں کی حکومت ہو تو پھر ان کے ہاتھ آیا مال تو حقدار تک کبھی نہیں پہنچتا۔ ہوس کے ماروں نے مظلوموں کا یہ مال بھی ہضم کرنے کی کوشش کی۔ بالآخر متاثرین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوئے۔متاثرین نے موقف اختیار کیا کہ انہیں میڈیا سے معلوم ہوا ہے کہ جرمن کمپنی KiK نے سندھ ایمپلائز سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کو بلدیہ ٹائون فیکٹری میں متاثر ہونے والے فی خاندان کو21لاکھ کی پاکستانی رقم بطور تلافی کے دی ہے جبکہ ہمیں سندھ سوشل سکیورٹی یہ رقم قسطوں میں ماہانہ چھ ہزار دے رہی ہے۔ براہ کرم ہمیں تمام رقم اکٹھی ادا کی جائے تاکہ غریب اور سفید پوش خاندان اس سے اپنے روزگار اور کاروبار کا انتظام کر سکیں۔ سات سمندر پار جرمنی کی کمپنی بلدیہ ٹائون کے متاثرین کا درد محسوس کرتی ہے اور قانون کے مطابق رقم ادا کرتی ہے جبکہ ادھر سندھ میں زرداریوں ‘ ہوس کاروں‘ چوروں اور ڈاکوئوں کے لالچ اور ہوس سے اندھے‘ پتھر دلوںمیں صرف ایک ہی خواہش ہے کہ مظلوموں کے اس مال پر ہاتھ کیسے صاف کیا جائے؟ مذمت سو بار مذمت۔ افسوس سو بار افسوس!تاریخ کی بدترین اور لرزہ خیز دہشت گردی سے ہمارے سماج پر جوں تک نہیں رینگی۔ ورک پلیس پر ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے کیا اقدامات ہوئے۔؟حادثے کی صورت میں ایگزٹ ڈور۔ آگ بجھانے کا سامان اپ ٹو ڈیٹ رکھنا۔ زہریلی گیسوں کے اخراج والے ماحول میں ورکروں کو حفاظتی ماسک اورکٹ پہنانا اور کسی حادثے کی صورت میں جاں بحق ہونے والے ورکروں کے لواحقین کی مالی اور معاشی مشکلات میں ان کو تحفظ دینا۔ کیا اس حوالے سے کوئی ایک قانون بھی ری وائز ہوا، قانون کی کتاب میں تو سب موجود ہے اصل مسئلہ اس بے حس معاشرے میں ان کی عملداری کا ہے۔ 260 مزدوروں کے زندہ مر جانے اور سینکڑوںخاندانوں کے معاشی طور پرتباہ ہونے کے بعد کیا مزدوروں کے تحفظ کی کسی انقلابی تحریک نے جنم لیا؟ سن 1911ئ، نیویارک Shirt Waist گارمنٹس فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھتی ہے، 146 ورکرز موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جن میں 129عورتیں ہیں۔یہ سانحہ امریکہ کے قانون کو مزدوروں اور ورکروں کے حق میں تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ نیویارک میں چلنے والی گارمنٹس فیکٹری کو نیشنل لینڈ مارک۔ ایک قومی اثاثہ قرار دیا گیا۔ اس سانحے نے پورے امریکہ کے اندر کارخانوں میں ورکروں کیلئے محفوظ ماحول کی ایک قومی تحریک کو جنم دیا۔ایسا ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں احساس اور انصاف کی حکمرانی ہو۔ جس سیاسی جماعت کے کارندوں نے اپنے سیاسی خدا کے کہنے پر سینکڑوں لوگوں کو زندہ جلایا، وہ سیاسی جماعت آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی نظام کا حصہ ہے۔ سندھ میں کسی نہ کسی طور حکمرانی میں شریک رہی ہے اور اب تو وزیراعظم نے اس جماعت کے لوگوں کو نفیس اور پسندیدہ قرار دیا ہے۔ پیارے پاکستانیو !ایسا ان معاشروں میں ہی ہوتا ہے جہاں بے حسی، ناانصافی اور ظلم کی حکمرانی ہو۔ جہاں جرم کرنے والے اپنی شناخت سمیت دندناتے پھریں اور قانون انہیں نامعلوم افراد لکھتا رہے۔