سوشل میڈیا میں سے یوٹیوب ویڈیوز، انسٹاگرام تصاویر، ورڈپریس مضامین تو ٹویٹر ون لائنر کی مدد سے اظہار خیال کے منظم مواقع ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ یہ آن لائن کاروبار کے حوالے سے بھی اپنا لوہا منوا چکے۔ مگر سوشل میڈیا کی اس دنیا میں فیس بک کی امتیازی حیثیت یہ ہے کہ یہ بیک وقت ویڈیوز، تصاویر، مضامین اور ون لائنر کے ذریعے اظہار خیال کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "اظہار خیال" کے ان پلیٹ فارمز میں سے فیس بک مقبولیت کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔ پانچ برس قبل تک صورتحال یہ تھی کہ ہمارے ہاں فیس بک کا زیادہ تر استعمال وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع کے لئے ہوتا تھا اور اس "کار خیر" کو دھڑلے کے ساتھ "ٹائم پاس" کہا جاتا تھا۔ تب صورتحال یہ تھی غالب اکثریت بس مختلف قسم کی تصاویر اپلوڈ کرتی اور ان پر طرح طرح کے تبصرے کئے جاتے۔ یہ تبصرے بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے کچھ اس طرح کے ہوتے کہ انہیں تبصرہ کرنے کے بجائے "تبصرہ ٹھوکنا" کہنا زیادہ مناسب تھا۔ مگر اس دور میں بھی گنتی کے چند سمجھدار اور سنجیدہ لوگ ایسے تھے جو باقاعدہ مضامین کے ذریعے اپنی دلچسپی کے موضوعات پر اظہار خیال کرتے۔ ان میں عامر خاکوانی، قاری حنیف ڈار، مفتی زاہد، سبوخ سید، ظفراللہ خان، ثاقب ملک، رانا اظہر کمال, حافظ صفوان اور سید متین احمد شاہ خاص طور پر نمایاں تھے۔ 2015ء آیا تو فیس بک پر سٹیٹس لکھنے کا زبردست رجحان پیدا ہوچکا تھا۔ اس رجحان کے نتیجے میں کئی نئے رائٹرز ہی دریافت نہ ہوئے بلکہ سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی وجود میں آگئیں۔ اگلے مرحلے میں فیس بک پر سرگرم نوجوان ثاقب ملک نے ’’سیک‘‘ کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ’’سوشل میڈیا سیمینار‘‘ منعقد کئے جن میں سوشل میڈیا سے ابھرنے والے نوجوان رائٹرز کو مین سٹریم میڈیا کے رائٹرز اور قومی سطح کے دانشوروں کے ساتھ ایک سٹیج پر بٹھا کر مثبت اور تعمیری قومی کردار کی جانب ایک زبردست پیش رفت کی گئی۔ اس سلسلے کو کامیاب بنانے کے لئے خاص طور پر عامر خاکوانی اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اہم کردار ادا کیا اور اس کے بہت ہی اچھے نتائج بھی نکلے۔ اسی دوران ’’مکالمہ‘‘ والوں نے بھی لاہور اور کراچی میں سیمینارز منعقد کئے اور ان سیمینارز کا بھی سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے حوالے سے گہرا اثر ہوا۔ ان سیمینارز کی خاص بات یہ تھی کہ گلی کوچوں سے جو غیر معروف نوجوان سوشل میڈیا پر اپنے اظہار خیال کے حوالے سے نمایاں ہوئے تھے انہیں بڑے کانفرنس ہال کے روسٹرم سے بطور نوجوان دانشور مخاطب ہونے کا موقع ملا جس کا وہ عام حالات میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ وہ مزید سنجیدہ ہوئے اور مطالعے کی مدد سے خود کو فکری اعتبار سے مضبوط کرنے لگے۔ اس کے جہاں سماج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں وہیں اردو زبان کو بھی اس کا بڑا فائدہ ہورہا ہے۔ آج سوشل میڈیا ایک ایسی نرسری کا کردار ادا کر رہا ہے جہاں سے ابھرنے والے کئی نوجوان رائٹرز ملک کے صف اول کے اخبارات تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔ اب ان کی تحاریر صرف فیس بک تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ وہ اخبارات میں بھی چھپ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا یہ تعمیری استعمال اپنے تیسرے دور میں داخل ہورہا ہے۔ اور اس کے اس تیسرے دور کا اظہار ایک حیران کن حد تک امید افزا صورت میں سامنے آنے کو ہے۔ کراچی سے عابد افریدی نام کا ایک نوجوان اس عزم کے ساتھ "جرگہ پاکستان" کا پلیٹ فارم سامنے لایا ہے کہ خیبرپختون خوا کے آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں پیدا شدہ اس صورتحال کو بہتر کیا جائے جس کے ہوتے منظور پشتین اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والے نوجوان ریاست سے اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ عابد چاہتا ہے کہ ریاست اور منظور پشتین کے بیچ سوشل میڈیا سے ابھرنے والے نوجوان دانشوروں کو کھڑا کرکے آگ پر پانی ڈالا جائے۔ اس وقت کی صورتحال تو یہ ہے کہ ریاست منظور پشتین کے جائز مطالبات پورے کئے جانے کا دعوی کرتی ہے۔ اور اس ضمن میں کچھ بہت اہم اقدامات نظر بھی آئے ہیں مگر منظور اور ان کے رفقاء کا جوابی دعوی یہ ہے کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اس صورتحال میں میدان سے باہر کھڑا عام آدمی سمجھ نہیں پا رہا کہ ان دعوؤں میں صداقت کتنی ہے اور اصل صورتحال کیا ہے ؟ عابد افریدی کا آئیڈیا یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی غیر وابستہ مقبول شخصیات کو جرگہ پاکستان کے پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور ان کی مدد سے اس صورتحال کو سمجھنے اور حل کرنے میں کردار ادا کیا جائے۔ منظور پشتین کو قریب سے جاننے والے بعض حضرات اس رائے کا بہت شدت کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ منظور ذاتی طور پر ایک مخلص نوجوان ہیں مگر ان کی جماعت کے بعض لوگ افغان حکومت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اس جماعت کے ورکرز کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کے خلوص پر کوئی شک و شبہ نہیں لیکن افغان مہاجرین کی باقیات اس پلیٹ فارم کو پاکستان دشمن نعروں کے لئے استعمال کرتی ہے، جس سے تاثر یہ قائم ہوگیا ہے کہ یہ پوری جماعت ہی این ڈی ایس کی آلہ کار ہے۔ لھذا اگر صورتحال کو جوں کا توں چھوڑ دیا جائے تو اس کا ملک کو نقصان ہوگا۔ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کے پیچھے پاکستان اور افغانستان کی تاریخی کشمکش کا گہرا اثر ہے۔ لیکن ایک ایسا موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے جب افغانستان کی صورتحال میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے نتیجے میں بہتری کا امکان پیدا ہوچلا ہے۔ اگر دوحہ مذاکرات کے وہ نتائج نکل آتے ہیں جن کی توقع کی جا رہی ہے تو پی ٹی ایم کی افغان پشت پناہی کا ختم ہونا نوشتہ دیوار ہوگا۔ ایسے میں پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے سرگرم ناراض عناصر کو سنبھالنا اور ان کی جائز شکایات کا ازالہ لازم ہوگا تاکہ داخلی امن کو لاحق خطرات ختم کئے جاسکیں۔ جرگہ پاکستان 7 اپریل کو اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد کرنے جا رہا ہے جس میں سوشل میڈیا سے ابھرنے والے نوجوان دانشور ہی نہیں بلکہ قومی سطح کی بہت ممتاز شخصیات بھی مدعو ہیں۔ ان میں بہت ہی قابل احترام رحیم اللہ یوسفزئی اور پروفیسر اباسین یوسفزئی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سیمینار کے حوالے سے ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت مؤثر اور مثبت سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کی کامیابی جہاں ایک دیرینہ مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے وہیں اس سے سوشل میڈیا کے مثبت قومی استعمال کو نئی جہت بھی ملے گی۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ امن ہماری ایسی ناگزیر ضرورت ہے جس کے لئے ہمارے پورے سوشل میڈیا کا جرگہ پاکستان بننا وقت کی ضرورت ہے !