جمہوریت نہ آئی، تگ و دَو بڑی ہوئی برگد کے نیچے، پھر سے گدھی آ کھڑی ہوئی یہ شعر، جمہوریت کے سب سے بڑے حامی شاعر، حبیب جالب مرحوم کا ہے۔ انہوں نے یہ بات, غالباً سن نواسی یا نوے میں کہی تھی۔ طویل مارشل لاء کے خاتمے پر بھی، یہ شاعر ِجمہوریت کی مایوسی کا اظہار تھا! جالب مرحوم کی نگاہیں، ایسے نظام کو ڈھونڈتی تھیں، جس میں جمہوریت "رائج" ہو نہ کہ "نافذ"! بات سمجھ میں آنے والی بھی ہے۔ جمہور کے معنی ہی عوام کے ہیں، سو جمہوریت، عوام کی آواز ہوئی۔ ایسا نظام، جو عوام کی رائے سے، عوام کی فلاح کے لیے وجود میں آئے! لیکن اس نظریے میں، یا یوں کہہ لیجیے کہ دنیا کی موجودہ جمہوریت میں، ایک بنیادی خامی ہے۔ جو آدمی، آگے بڑھ کر، خود اپنی ذات کے لیے ووٹ مانگے، اس کا پَتّا، خود بخود کَٹ جانا چاہیے! خالص جمہوریت میں، ہونا تو یہ تھا کہ عام لوگ، اپنے "خادم" کی تلاش، خود کرتے۔ اس کے دروازے پر، دھرنا دیتے اور منت و التجا کر کے، اسے گھر سے نکلنے پر آمادہ کرتے! ایسا نظام، جس میں "عوام کا خادم"ووٹ مانگتا پھرے، الٹی گنگا بہانے کے برابر ہے! یہ کیسا کھْلا ہوا فراڈ ہے! لیکن اس فراڈ کا شکار، صرف پاکستان یا تیسری دنیا نہیں ہوئی۔ تقریبا سارے مغربی ممالک کی حالت, یہی ہے۔ جمہوری ممالک کے پیشوا، امریکہ میں دو ہزار سولہ کی صدارتی انتخابی مہم پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ کیے گئے! ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہلری کلنٹن اور ایک ارب کے قریب ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم پر صرف ہوئے۔ پاکستانی عوام کو، یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ دو پارٹیوں کو نامنظور کر کے، تیسری پارٹی سے لَو لگائی ہے۔ امریکہ میں، وہی دونوں جماعتیں آج بھی وہی پیران ِتسمہ پا، صرف دو جماعتیں میدان میں ہیں، جو اول روز سے تھیں۔ ع برہمانیم کہ بودیم و ہمان ’’خواہد‘‘ بود لیڈران ِکرام، مہنگی ترین گاڑیوں سے اتر کر، عوام میں جاتے ہیں اور ان کی فلاح کے, تھوڑے سے اور چھوٹے چھوٹے سچے, اور زیادہ تر اور بڑے بڑے جھوٹے وعدے کر کے، پلٹ آتے ہیں۔ یہ اتفاق بھی دیکھیے کہ ان میں سے بیشتر، وکلاء ہیں۔ وہی پیشہ جس کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ قابل ِرشک ہیں زمانے میں رات "عاشق" کی، دن وکیلوں کے! تیسری دنیا کے بدعنوان معاشرے میں، ایک بات بڑے تواتر سے کہی اور لکھی جاتی ہے کہ مغربیوں کو دیکھو۔ فلاں وزیر ِاعظم، اپنے دفتر، بس میں بیٹھ کر پہنچتے ہیں اور فاسٹ فوڈ کی قطار میں، کھڑے دکھائی دیے۔ یا فلاں صاحب، گھر کے سامان کی خریداری، خود کرتے نظر آئے۔ یہ سادگی، صرف ایک پہلو ہے، جو معاشرے کے دبائو کا پیدا کردہ ہے۔ لیکن اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دنیا بھر میں، جہاں کہیں بھی غریب اقوام پر ظلم ہوتا ہے، اس میں تقریباً ہمیشہ، ان "سادے" وزرا ء اعظم کی حمایت یا تائید شامل رہتی ہے۔ اب اس سے بھی آگے کی بات سنیے۔ انہی "سادے" وزراء اعظم کے عوام، اس ظلم و بربریت اور جنگوں کے شدید مخالف ہیں۔ اتنے بڑے فیصلے، اگر عوام کی رائے کے برخلاف کیے جاتے ہیں، تو کاہے کی رائے عامہ اور کیسی جمہوریت؟ کروڑوں لوگوں کی رائے، یکسر بدل ڈالنا محال ہے۔ لیکن ان کے "منتخب کردہ" چند درجن یا دو چار سو "خادموں" کو قابو میں کرنا آسان! عوام کی رائے اور عوام کی فلاح کا، یہ خاکسار بھی مبلغ ہے۔ لیکن جھوٹی جمہوریت کو, اپنا دور کا سلام! اس خاکسار کے لیے، یہ کہنا ممکن نہیں کہ ع مجھ مست کو، مَے کی بْو بہت ہے! اصل اور حقیقی جمہوریت قائم کرنے کا، صرف ایک طریقہ ہے۔ اگلے کالم میں ان شاء اللہ، اسی پر بات ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ ایک مضمون، دو شاعر شاعری کا روایتی میدان، اتنا محدود ہے کہ مضامین کا بلکہ شاعروں کا بھی، ٹکرائو ناگزیر ہے! کھْلی ہوئی چوری کو سرقہ کہا جاتا ہے۔ اور غیر شعوری طور پر مضمون ’’لڑ‘‘جانے کو توارد! یہ اور بات کہ یوسفی صاحب نے کسی جگہ "سرقے میں توارد ہو گیا" کی ترکیب استعمال کی ہے! ایک شاعر، اپنی بے کفن لاش کے لیے، دوپٹے اور وہ بھی خصوصا, ململ کے دوپٹے کا طالب ہوتا ہے! دوسرا کہتا ہے کہ صرف ع ڈال دے سایہ اپنے آنچل کا بظاہر یہ نازک خیالی، جتنا بھی مزا دے جائے، بے کفن لاش کی اصطلاح کتنی فْحش ہے! لیکن پست شعروں کے مقابل، اچھے شعر بھی کہے گئے ہیں۔ کسی نے کہا نگاہ برق ہے، چہرہ گْلاب جیسا ہے وہ آفتاب نہیں، آفتاب جیسا ہے اس پر، جلیل مانکپوری، جو امیر مینائی کے شاگرد اور نظام حیدرآباد کے استاد تھے، گویا ہوئے۔ نگاہ برق نہیں، چہرہ آفتاب نہیں وہ آدمی ہے، مگر دیکھنے کی تاب نہیں کیسا موزوں اور مکمل شعر ہے! پہلے مصرعے میں، معشوق کی "بشریت" دکھا کر، دوسرے میں اسے، ماورا کر دیا! غالب کا مشہور شعر دیکھیے فردا و دی کا تفرقہ، یک بار مٹ گیا کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی مضمون اچھا ہے، مگر بندش خوب نہیں۔ اول تو یہاں صحیح ترتیب، دی و فردا یعنی ماضی اور مستقبل ہے! اور پھر "کل" استعمال کر کے، سارے حال پر پانی پھیر دیا گیا! اب اکبر الٰہ آبادی کا شعر سنیے۔ میرے دل سے امتیاز ِدی و فردا اٹھ گیا حشر بھی ماضی نظر آیا، جو پردا اٹھ گیا! غالب کے شعر میں "یک بار مٹ گیا" کے باوجود، ایک اضطرار اور وقتی کیفیت ہے۔ اکبر کے شعر میں، استقلال اور ٹھہرائو ہے! لگتا ہے کہ پردا اٹھنے سے، شاعر حقیقت کو پا گیا ہے۔ اور اب یہ کیفیت مستقل رہے گی!