اسلام آباد(خبر نگار،نیوز ایجنسیاں)چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے اعلٰی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے معاملے پر وکلائکی نمائندہ تنظیموں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے میں سمجھنے سے قاصر ہوں ججز تقرر کے بارے بار کونسلز کے احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں،ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلزکے صدور کو متعدد بار مذاکرات کی دعوت دی،بار کونسلز کے صدور کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ پشاور میں ہیں،میں نہیں جانتا بار کونسلز نے کیوں یکطرفہ موقف اپناتے ہوئے معاملے کو اٹھایا،ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلز کی رائے ہمیشہ لی گئی ہے ،بار کونسلز اور وکلا کیلئے اب بھی دروازے کھلے ہیں،ججز تقرری کے معاملے پر آکر مجھ سے بات چیت کریں۔ گرمیوں کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد نئے عدالتی سال کے آغازپر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف سٹس نے کہا گزشتہ سال ہر لحاظ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کیلئے مشکل تھا،کورونا کے باعث مقدمات کو نمٹانے کی راہ میں زیادہ مشکلات کا سامنا رہا لیکن اس کے باوجود عدالتوں کا دروازہ عوام کیلئے کھلا رکھا، وائرس کے باعث عدالتوں میں زیر التواء مقدمات میں اضافہ ہوا، زیر التواء مقدمات میں اضافے کی وجہ وکلاء کا کورونا کی وجہ سے عدالتوں میں پیش نہ ہونا بھی ہے ۔ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر 45644 زیر التواء مقدمات تھے ، گزشتہ سال 20910 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ 12968 نمٹائے گئے ،نمٹائے گئے مقدمات میں 6797 سول پٹیشنز، 1916 سول اپیلیں ،469 نظرثانی کی درخواستیں تھیں،گزشتہ سال 2625 فوجداری پٹیشنز،681 کریمنل اپیلیں ،37 کریمنل نظر ثانی درخواستیں اور 100 اوریجنل کریمنل درخواستیں نمٹائی گئیں۔گزشتہ سال ماڈل کورٹس نے 55694 مقدمات نمٹائے جن میں171 ماڈل کرمنل کورٹس نے قتل اور منشیات کے 14190 کیسز نمٹائے ، 149 ماڈل ٹرا ئل مجسٹریٹ کورٹس نے 20032 جبکہ 117 ماڈل سول اپیلٹس کورٹس نے 21472 کیسز نمٹائے ۔ رواں برس ہم نے دو سینئر ججز جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مشیر عالم کو مدت ملازمت پوری ہونے پر الوداع کہا اور جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کو عدالت عظمی میں خوش آمدید کہا ۔انہوں نے کہا سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے ، 23 دسمبر کو نیشنل جوڈیشل کمیٹی نے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی دس سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا، پشاور ہائیکورٹ کو تجویز دی کہ قبائلی علاقہ جات کے ضم ہونے کے بعد ججز کی تعداد میں اضافہ کرے ،ہائیکورٹس کو عدالتوں کی تزئین و آرائش کیلئے فنڈز فراہم کر دیئے ،لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے مفت قانونی رہنمائی کیلئے ڈسٹرکٹ امپاورمنٹ کمیٹی بھی قائم کی گئی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا دوسری بار نئے عدالتی سال کی تقریب کا حصہ بننے کا موقع ملا، فل کورٹ ریفرنس کا مقصد گزشتہ سال کی کرکارکردگی اور نئے سال کی منزل کا تعین کرنا ہے ،سپریم کورٹ کے نئے سال کے آغاز پر ججز کی تعداد مکمل نہیں ، اعلیٰ عدلیہ میں خاتون جج کی کمی آدھی آبادی کو نمائندگی سے محروم رکھے گی،کورونا کے دوران ایک بھی دن عدالت نے اپنا کام نہیں روکا، سپریم کورٹ نے گزشتہ عدالتی سال متعدد اہم فیصلے دیئے ،ایک فیصلے کی وجہ سے بہت سے لوگ بے روزگار ہوئے ، سپریم کورٹ کے دوسرے فیصلے نے ظاہر کیا کہ خواتین کی ہراسگی سے متعلق اعلیٰ عدلیہ کتنی بے بس تھی ، آج سے قبل بینچ اور بار کے درمیان اتنی دوریاں کبھی نہیں تھیں،اب وکیل ہڑتال کرتے ہیں اور عدالتوں کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ہڑتال مزدوروں کا ہتھیار تھا جو ناانصافیوں کے خلاف استعمال ہوتا تھا، اب ہڑتال کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ، گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں بھی احتجاج ہوا لیکن ہم نے بردباری کا مظاہرہ کیا،آج سنیارٹی پر ججز کی تعیناتی کا مسئلہ تعلقات میں بگاڑ کی وجہ بن رہاہے ،سنیارٹی کے علاوہ ججز کی کارکردگی انہیں دیگر سے نمایاں کرتی ہے ، ججز کی تعیناتی میں شفافیت سے پسند اور ناپسند کے عنصر کو ختم کیا جاسکتا ہے ،جسٹس وقار سیٹھ اور سندھ ہائیکورٹ بار کی زیر التواء درخواستیں جلد نمٹا کر شکوک وشبہات کو ختم کیا جاسکتا ہے ،چیف جسٹس گلزار احمد کے عہدہ سنبھالتے ہی کورونا کی وجہ سے زیر التواء مقدمات میں اضافہ ہوا،عدالتوں میں زیر التواء مقدمات خطرناک حد تک بڑھ چکے جن میں کمی کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ،ججز تقرری سمیت عدلیہ کے تمام مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت ہر وقت تیار ہے ۔ سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احمد شہزادہ رانا نے کہا وکلا ئکا کسی معاملے پر آواز اٹھانے کا مقصد عدلیہ کی بے توقیری کرنا نہیں،ججز کی تقرری میں سنیارٹی اور میرٹ کو دیکھنا چاہئے ، سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات 54ہزار تک پہنچ چکے ،دو سال سے دائر درخواستیں سماعت کیلیے مقرر نہیں کی جارہیں،سپریم کورٹ کو بار کونسل اینڈ پریکٹیشنر ایکٹ میں ترمیم کا نوٹس لینا چاہئے ،عدلیہ پر مشکل وقت آیا تو وکلا ئبرداری ہمیشہ ساتھ دے گی۔ ممبر پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا عدالتی نظام بالخصوص نچلی عدالتوں میں شفاف اور فوری انصاف کی فراہمی اطمینان بخش نہیں،چیف جسٹس سے گزارش ہے عدالتوں کی اہلیت اور کارکردگی میں بہتری لائی جائے ، عدالت عظمی میں کئی اہم مقدمات زیر التوا ہیں جن کی اب تک ایک بھی سماعت نہیں ہوئی،یہ بات قابل ستائش ہے کہ عدالتوں نے سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کی جلد شنوائی کر کے جلد فیصلے کئے لیکن دو مرتبہ آئین کو پامال کرنے والے آمر کا مقدمہ آج تک سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیا،ہماری عدلیہ مختلف ادوار میں نشیب و فراز سے گزری،ہم عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہے ،تاثر ہے عدلیہ جمہوری اداروں کی تقویت کے بجائے ان کو کمزور کرنے کی راہ پر چل نکلی ہے ،منتخب وزراء اعظم کبھی پھانسی، کبھی توہین عدالت کی تلوار سے کچل دیئے جاتے ہیں،پانامہ کیس میں آئینی حدود کو نظر انداز کر کے اقامے کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم کو گھر بھیجا گیا،نیب قانون کے ذریعے سیاسی مخالفین کی پکڑدھکڑ اور انتقامی کارروائیاں روکنے میں عدلیہ ناکام رہی، اعلی عدلیہ کے ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے ۔ فل کورٹ ریفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوا عدالت عظمی کے تمام معزز جج صاحبان شریک ہوئے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیرون ملک ہونے کے باعث شریک نہ ہو سکے ۔ فل کورٹ ریفرنس میں وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل خوشدل خان اورصدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن لطیف آفریدی شریک نہیں ہوئے ۔