البم میں سجی ہوئی تصویریں، گزرے ہوئے وقت کا نقش ہوتی ہیں۔ ہم ان تصویروں کو دیکھ کر ذرا سی دیر کے لیے پھر سے وہ لمحے جی لیتے ہیں۔ وقت گزرتا رہتا ہے۔ لوگ بوڑھے ہونے لگتے ہیں، خدوخال کے گلاب مرجھانے لگتے ہیں، عمر رواں اپنی گرد ڈال کر آگے نکل جاتی ہے تو تصویریں ہی بوڑھی ہو کر مرنے لگتی ہیں۔ ان تصویروں میں مسکراتے، زندگی کی گہما گہمی کو اپنے خوب صورت چہروں کے خدوخال سے منعکس کرتے ہوئے چہروں پر جب موت اپنا عکس ڈالتی ہے تو پھر ان تصویروں میں زندگی کی رمق باقی نہیں رہتی، تصویریں مرنے لگتی ہیں اور وہ تصویریں دیکھ کر دل ایک گہری ہمہ گیر اداسی سے بھر جاتا ہے۔ چمڑے کا ایک کالے رنگ کا پرس کئی سالوں سے میرے پاس ہے۔ میں سال گن نہیں سکتی مگر یہ یاد ہے کہ اس پرانے بوسیدہ سے پرس کو میرے پاس اتنے ہی سال ہو چکے ہیں جتنے سال ماں کی جدائی کو ہوئے۔ یہ پرس میری ماں کی روز مرہ ضرورتوں میں شامل رہا ہے۔ بازار سے سودا سلف منگوانے والے چھوٹی چھوٹی پرچیاں۔ ضروری چیزوں کی فہرست، ان کے آگے ان کی قیمتیں درج ہیں۔ روز مرہ کے اخراجات کا پورا حساب کتاب۔ سرخ اور نیلی سیاہی والے بال پوائنٹ سے لکھی ہوئی وہ سودے سلف کی چھوٹی چھوٹی پرچیاں اب مجھے اپنی زندگی کے سب سے روشن باب کا عنوان لگتی ہیں۔ اسی پرس میں یہ پرچیاں محفوظ ہیں اور ساتھ چند تصویریں جن میں مسکراتے ہوئے، وہ لوگ رفتہ رفتہ زیست کے اس پار اتر گئے جہاں سے اب کوئی واپس نہیں آتا۔ خاندان میں ہونے والی شادی بیاہ کے چہکتے مہکتے لمحوں میں اتری ہوئی وہ تصویریں، اب لمحۂ موجود میں دیکھیں تو دل میں ایک بے کنار اداسی اترتی ہے۔ آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے۔ طبیعت دیر تک نہیں بہلتی، ایک بوجھل پن ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ چمڑے کے اس کالے پرس میں رکھی ہوئی یہ چند تصویریں اس میں رکھی رہتی ہیں۔ نہ جانے کیوں میں نے انہیں کسی البم میں محفوظ نہیں کیا۔ البم اور تصویروں کی ہارڈ کاپی کا زمانہ ہی وقت کی رفتار میں اب پیچھے رہ گیا ہے۔ اب ہر ہاتھ میں موبائل فون کی صورت میںجدید کیمرے موجود ہیں۔ تصویر تو کیا اب سلفیاں بننی ہیں۔ تصویر کے ساتھ جڑی ہوئی وہ جو جذباتی وابستگیاں ہیں۔ وہ بھی اب ویسی نہیں رہیں۔ اب تو ہر لمحہ تصویریں بنتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئی ہے اور لائکس اور کمنٹس کے ہنگام میں تصویروں پر تصویروں کے ڈھیر لگتے چلے جاتے ہیں۔ آسانی سے بنائی ہوئی تصویریں، آسانی سے بھول جاتی ہیں۔ میرے سامنے اس وقت وہ تصویریں پڑی ہیں جن میں خوب صورت لمحے، میں نے ریگولر کیمرے کے لینز پر محفوظ کیے تھے۔ محض اتفاق ہے کہ کل، کوئی چیز ڈھونڈتے ہوئے، ایک پرانا البم ہاتھ لگا، غالباً 2003ء یا 2004ء کا سال تھا۔ جب لاہور میں کرشن چندر کے حوالے سے ایک قومی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کراچی سے فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن، ڈاکٹر آصف فرخی، جیسے بڑے نام لاہور تشریف لائے اور لاہور سے بھی جگمگاتی ادبی کہکشاں اس تقریب میں موجود تھی۔ انتظار حسین، افضل توصیف صاحبہ، منیر نیازی، اسلام آباد سے ممتاز شاعرہ ثمینہ راجہ بھی موجود تھیں۔ میری صحافت کے آغاز کا زمانہ تھا، ان بڑی بڑی ادبی ہستیوں سے پہلی بار ملنے کا موقع تھا، سو ان یادگار لمحوں کو محفوظ کرنا ضروری تھا۔ کیمرے میں ریل ڈلوائی اور یوں ان لمحات کو کیمرے کے لینز پر محفوظ کر لیا۔ان تصویروں میں مسکراتے ہوئے، زندگی کی گہما گہمی کو اپنے خدوخال سے منعکس کرتے ہوئے کتنے خوبصورت چہرے، زیست کے اس پار اتر چکے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔مسکراتی ہوئی ثمینہ راجہ، اپنی خوشبو کے خمار میں گم ،پھول جیسا منیر نیازی اپنی ذات کی گم شدہ کڑی کو ماضی میں تلاش کرتا ہوا، بلند شہر کے پرندوں کی آوازیں سنتا انتظار حسین۔درد کی دہلیز پر کھڑی ہوئی شہر کا نوحہ پڑھتی ہوئی دبنگ افضل توصیف، سب کے سب حصار جسم و جاں سے نکل کر عدم کے سفر پر روانہ ہو چکے۔ ان سب کے ساتھ ڈاکٹر آصف فرخی کی تصویر بھی تھی۔ اونچی قدوقامت، عینک کے پیچھے سے جھانکتی ذہین آنکھوں سے مسکراتا ہوا دنیا زاد کل اچانک دنیا چھوڑ گیا اور اپنے چاہنے والوں، دوست احباب اور اردو ادب سے وابستہ لوگوں کو عجب حیرانی سے دو چار کر گیا۔ سوشل میڈیا، تعزیتی پوسٹوں سے بھر گیا۔ اردو ادب کے لیے بھی بہت بڑا صدمہ اور اتنی ہی بڑی حیرانی بھی۔ اگرچہ ان دنوں وبا کا موسم ہے، موت کی ارزانی کا زمانہ ہے۔ بیماری اور موت کی خبریں اس تواتر سے آتی ہیں کہ دل استغفار طلب کرتا ہے۔ انہی خبروں کے درمیان جب ڈاکٹر آصف فرخی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کی خبر ملی۔ زندگی کا بھرا ہوا میلہ چھوڑ کر کوئی جہان سے اٹھ گیا۔ اردو ادب میں انہوں نے اپنا قابل رشک حصہ ڈالا ہے اور جو کام انہوں نے کیے اور کر رہے تھے۔ کوئی دوسرا اردو ادب کے منظر نامے پر وہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ادب کو اپنی زندگی کی کمٹمنٹ بنانے والے تھے۔ اردو زبان و ادب کو عالمی منظر نامے تک لیجانا ان کا ایک بڑا کام تھا۔ پھر دنیا کے مختلف زبانوں کے ادب کو اردو زبان میں ڈھالنے کا کام۔ ادبی میلے سجانا، اور اردو کے ساتھ اپنے عشق کو نبھانا۔ تمام عمر آصف فرخی نے یہ کام شاندار انداز میں کیا۔ زندگی کے آخیر تک وہ تخلیقی طور پر متحرک رہے۔ ’’تالا بندی کا روزنامچہ‘‘ کے عنوان سے ویڈیو کالم باقاعدگی سے ایک ویب سائٹ پر شیئر کرتے۔ ان کالموں میں وبا کے موسم میں ویرانی اور موت کی ارزانی کا تذکرہ کرتے کرتے، وہ خود موت کا ہاتھ تھام کر زندگی کے میلے سے چل دیئے۔ وبا کے موسم میں ہونے والی موت بہت ویران سی ہوتی ہے۔ دوست احباب کو تدفین سے اور جنازے پر آنے سے احتیاطاً روک دیا جاتا ہے۔ ادبی میلے سجانے والا آصف فرخی بھی وبا کے موسم کی اسی ویرانی میں رخصت ہو گیا۔ جس روزہمارا کوچ ہو گا پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی