یہ سخیوں کے سخی کو یاد کرنے کے دن ہیں اور ان کے مربی ومشعل کو مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں وہ ایک اورطرح کے لوگ تھے۔ یوں تو پروردگار کی صفتِ رحمت دائم صفتِ عدل پہ غالب ہے، مگر وہ ایک اور طرح کے لوگ تھے۔ ابرِ رحمت جس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر ان پہ برستارہا، آدمیت کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: رضی اللہ عنہم و رضو عنہ۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ اپنے مہمان سے میزبان نے پوچھا: کھانا کیسا تھا؟ جواب ملا: بہت ہی عمدہ۔ فرمایا: عمر بھر اچھا کھانا کھایا اور عمر بھر اچھا لباس پہنا مگر اب یہ دو بکریاں رہ گئیں۔ یہ عثمان غنیؓ تھے، ذوالنورین۔ عالی مرتبتؐ نے اپنی دو صاحبزادیوں کی ان سے شادی کی۔دوسری نورِ نظر کا انتقال ہوا تو ارشاد کیا: اگر ایک بیٹی اور ہوتی تو اس کا نکاح بھی انہی سے کر دیتا۔ ہندو شاعر نے کہا تھا: اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا اس کو ہمدوشِ ثریا کر دیا زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نا م پر اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے شیخ امام ختلیؒ نے کہا تھا: یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس کا روزہ رکھ لیا۔ یہ جو اولیا تھے، انہی کے نقشِ قدم پہ تھے۔ زندگی مسافرت اور عقبیٰ عزیز۔ ایک عجیب نکتہ شاہ ولی اللہ ؒنے بیان کیا ہے: شیخین سیدنا ابو بکر صدیق ؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی خلافت‘ خلافتِ خاصہ تھی۔ سرکارؐ کی غیر معمولی توجہ کے طفیل انہی کے مزاج اور انہی کی ترجیحات کے سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ پھر زوال کا آغاز ہونا تھا۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ خیر و شر کی دائمی کشمکش ہی مالک کو منظور ہے۔ شیخینؓ نے جن قوتوں کو مغلوب کر کے پست کر دیا تھا، بالاخر انہیں ابھرنا تھا۔ اپنے مفادات کے لیے بروئے کار آنا تھا۔ سیدنا عثمانِ غنیؓ کے عہد میں وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ بیمار بیٹی کے لیے مجبور آدمی کو شہد کی ضرورت پڑی۔ اسے بتایا گیا‘ کوئی دیر میں ایک قافلہ مدینہ میں داخل ہونے والا ہے۔ اس کے سردار سے فرمائش کرنا۔ سردار وہ تھا، جس کی وجاہت اور مردانہ جمال ضرب المثل تھا۔ سائل راہ میں جا کھڑا ہوا۔ درخواست کی تو غلام سے اس نے کہا: شہد کا ایک مٹکا اسے دے دو۔ اس نے کہا: آقا دو گھڑے اونٹ پر لدے ہیں۔ ایک اتار لیا تو وزن برابر نہ رہ سکے گا۔ حکم ملا: دونوں گھڑے دے دو۔ وہ بولا: اتنا بار یہ بیچارہ کیونکر اٹھا سکے گا۔ کہا: اونٹ بھی دے دو۔ یہ الفاظ سنے تو وہ بھاگا۔ سردار نے پوچھا: ایک اور دو گھڑوں کا کہا تو تامل کا شکار رہے مگر تیسری بار ایسی عجلت؟ صحبت یافتہ مرد نے کہا: آقا مجھے اندیشہ ہوا کہ ایک ذرا سی تاخیر بھی کی تو آپ مجھے بھی اس کے حوالے کر دیں گے۔ کہا: تمہارے حق میں یہ بہتر ہوتا، تم آزاد کر دیے جاتے۔۔۔کیا عجب ہے کہ بعد میں وہ آزاد ہی ہو گیا ہو۔ اسی لیے انہیں غنی کہا گیا تھا۔ ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز اس جنگ میں، جسے جنگِ عسرت کہا جاتاہے کہ سازو سامان کم تھا‘ جناب عثمان غیؓ نے سونے کا ایک ڈھیر رحمۃ اللعالمینؐ کے قدموں میں جا ڈالا۔ ارشاد فرمایا: آج کے بعد عثمان کچھ بھی کرے، کوئی فکر اسے نہ ہونی چاہئے۔ کوئی نقصان اسے نہ پہنچے گا۔ فاروقِ اعظم ؓ کی شہادت کا سانحہ اچانک پیش آیا۔ طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو آخری لمحات کی روداد لکھتا۔ گوکہ لکھنا مشکل ہے اور پڑھنا بھی مشکل۔ اپنے جانشین کے لیے ایک کمیٹی آپؓ نے بنادی۔ کمیٹی نے ان سے پوچھا تھا: کیا آپ شیخینؓ کے راستے پر چلیں گے؟ جواب اثبات میں تھا۔ عالمِ اسلام کی حدود بہت پھیل گئی تھیں۔ عام تاثر کے برعکس سب سے زیادہ فتوحات آپؓ ہی کے عہد میں ہوئیں۔ ظاہرہے کہ پہلی سی مضبوط گرفت دار الخلافہ کی باقی نہ رہی۔ شورش پسند تدابیر کرنے لگے۔ منافقین تو خود سرکارؐ کے عہد میں بھی موجود رہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ دیار و امسار میں تھے اور حالات نسبتاً سازگار۔ فاروقِ اعظمؓ کو عالی جنابؐ نے ایک بار یوں مخاطب کیا تھا: اے قفلِ فتنہ! اشارہ واضح تھا کہ ان کے بعد یکجائی ویسی نہ رہے گی۔ فتنے کا سدباب سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کر دیا تھا۔ عمر ابنِ خطابؓ کے بارہ سالہ اقتدار میں اسلامی اقتدار مستحکم ہو گیا۔ سوشل سیکورٹی سمیت 26 ادارے بنے۔ تاریخ کا سب سے پرامن معاشرہ وجود میں آیا۔ وہ اٹھے تو شرارت پسندوں کو سوجھنے لگی۔ سید الطائفہ، جنید بغدادی ؒ نے کہا تھا: یہ کاروبارِ دنیا ہے، ازل سے ایسا ہی ہوتا آیاہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اکسانے والوں میں یہودی تھے، زرتشت کے ماننے والے تھے‘ شاید کچھ جہالت اور ہیجان کے مارے بھی۔ آخر کوجبلتیں ہی کارفرما ہوتی ہیں۔ لشکر کا لشکر مدینہ میں در آیا۔ امیر المومنینؓ کا ایک مکتوب تھا، جس پہ رقم تھا ’’اقبلو محمد بن ابی بکر‘‘ الفاظ پہ اس زمانے میں اعراب نہ لگائے جاتے۔ بعدازاں حجاج بن یوسف نے لگائے۔ دو طرح سے یہ جملہ پڑھا جا سکتا تھا۔ ’’اقبلو محمد بن ابی بکر‘‘ محمد بن ابی بکر کو قبول کر لو۔ یا ’’اقتلو محمد بن ابی بکر‘‘ محمد بن ابی بکر کو قتل کر ڈالو۔ مسلم افواج تو دور دراز کی سرزمینوں میں تھیں۔ انہوں نے آپؓ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ وہ گھر جہاں سے حاجت مندوں پہ ہمیشہ عنایات کی بارش ہوتی رہی۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے جنابِ حسن علیہ السلام اور جناب حسین علیہ السلام کو حفاظت پہ مامور کیا۔کچھ دوسرے بھی موجود رہے مگر آخر کار عقبی دیوار سے وہ کود پڑے۔ اصحابِ رسولؐ نے طاقت کے استعمال کا مشورہ دیا۔ طے کر لیتے اور پکارتے تو جانباز چلے آتے مگر آپ نے فیصلہ کر لیا۔ فیصلہ کر لیا کہ طاقت کا استعمال کرنے والے وہ پہلے آدمی نہ ہوں گے۔ باقی تاریخ ہے۔ مصحف پہ لہو کے چھینٹے گرے اور روح پرواز کر گئی، جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خیر خواہی میں گندھا تھا۔ جس نے کبھی کسی سے کچھ نہ لیا او رسبھی کو عطا کرتا رہا۔ جو ایمان لانے والے اوّلین میں سے تھا۔۔۔اور یا للعجب پہلے دنوں میں سب سے زیادہ لوگ انہی کی کاوش سے بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہوئے تھے۔ فتنوں کا دروازہ کھل گیا اور زوال کا آغاز ہو گیا؛حتیٰ کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ اور ان کے صاحب علم فرزند امام حسن علیہ السلام کے بعد خلافت کا دروازہ بند ہو گیا‘ ملوکیت کا، من مانی کا در کھلا۔ مال ختم ہو چکا تھا۔ ہمیشہ کے غنیؓ نے اپنی زندگی بھی نچھاور کر دی۔ کیسے لوگ تھے، کیسے عجیب لوگ۔ فرمان یہ ہے: میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کرو گے، مراد پا لو گے۔ اپنی مٹھی جو کھول دیتاہے، سخا کو شعار کرتاہے، مشاہدہ یہ ہے کہ دائم وہ غنی رہتاہے۔ خوف اور غم سے آزاد۔ یہ سخیوں کے سخی کو یاد کرنے کے دن ہیں اور ان کے مربی و مشعل کو مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں