مجھے میاں شہباز شریف کی بات قرین قیاس لگتی ہے‘2018ء کے عام انتخابات سے چارچھ ماہ پہلے تک وہی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیح اوّل تھے۔ ایک سینئر اخبار نویس نے جوشریف فیملی اور مقتدر حلقوں میں قابل اعتماد رسائی رکھتے ہیں مجھے بتایا تھا کہ تحریک انصاف کی جدوجہد اور عمران خان کی عوامی مقبولیت اپنی جگہ مگر یہ حلقے مسلم لیگ اور میاں شہباز شریف سے معاملہ فہمی میں آسانی محسوس کرتے ہیںوہ بھی شائد نامہ و پیام کا فریضہ انجام دیتے رہے‘ حکمرانی کا تجربہ‘ زود فہمی اور تاجر برادری و بیورو کریسی میں اثرورسوخ مسلّم‘ اسی باعث بعض سینئر تجزیہ کار 25جولائی کی شام تک وزارت عظمیٰ کا سہرا میاں شہباز شریف کے سر پر سجنے کا خواب دیکھتے اور حسب استطاعت غالب کے انداز میں انہی کا سہرا کہتے رہے ؎ ہم سخن فہم ہیں‘ غالب کے طرفدار نہیں دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر مسلم لیگ(ن) کا جلوس لاہور کے گلی کوچوں میں سرگرداں رہا‘ لاہور ایئر پورٹ کا راستہ بھول گیا تو یہ محض اتفاق نہ تھا‘ میاں شہباز شریف پر محترمہ مریم نواز شریف کے مصاحب مصلحت پسندی کی تہمت لگاتے ہیں مگر شریف خاندان کا کوئی دوسرا فرد‘ مریم نواز کے مصاحبین میں سے کوئی حریت پسند لیڈر و کارکن لاہور ایئر پورٹ پر میاں صاحب کے استقبال کے لئے کیوں نہ پہنچا؟ یہ سوال آج تک کسی نے اٹھایا نہ میاں نواز شریف کے نظریاتی بیانیے کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں نے جواب کی زحمت گوارا کی‘ حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب گرفتاری دینے اور اڈیالہ جیل جانے کے لئے نہیںجذباتی فضا سے25جولائی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے وطن واپس آئے مگر ہوائوں کا رخ اور ووٹروں کا موڈ بدل چکا اور عمران خان کو اقتدار سے محروم رکھ کر مسلم لیگ کو اقتدار میں لانا مشکل ہو گیا تھا‘ سیاسی حرکیات کا درست ادراک اور صائب تجزیہ کئے بغیر اقتدار سے محرومی کا نوحہ پڑھنا آسان ہے ؎ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا آج بھی میاں شہباز شریف اگر تنہائی میں دل و دماغ کی یکسوئی کے ساتھ ایماندارانہ تجزیہ کریں تو بآسانی اس راز کو پا سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے بیانیے سے صرف مقتدر حلقوں میں تشویش‘ بدگمانی اور بیگانگی نہیں بڑھی ‘عوام نے بھی بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شریف خاندان کے لئے اقتدار کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ اس قیادت‘خاندان اور پارٹی کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ جسے فوج‘ آئی ایس آئی اور عدلیہ سے لڑنے جھگڑنے کا شوق اوربار بار اقتدار سے محروم ہونے کا لپکا ہے‘ کرپشن کے الزامات‘ عدالتی فیصلے کے ساتھ اس عوامی سوچ نے بھی مسلم لیگ کی انتخابی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا اور جو حلقے مسلم لیگ سے کمفرٹ ایبل اور میاں شہباز شریف سے خورسند تھے وہ بھی عوامی موڈ کے برخلاف کوئی کردار ادا نہ کر سکے۔ اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر میاں شہباز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پلان بی تیار اورہر سٹیک ہولڈر کے لئے دروازے کھلے رکھتی ہے۔ 1996ء میں امریکی سرپرستی حاصل ہونے کے بعد میاں نواز شریف ایک بزرگ صحافی کے توسط سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے‘ پنجاب کے گورنر راجہ سروپ خان کا کردار سہولت کار کا تھا اور بیگم عابدہ حسین کے ذریعے سردار فاروق خان لغاری(اس وقت کے صدر) سے سیاسی لین دین میں بھی مشغول‘2018ء میں کسی نے اگر شریف خاندان اور عمران خان دونوں سے رابطہ رکھا تو قباحت کیا ہے اور میاں شہباز شریف کو اعتراض کیوں کر؟ 25جولائی سے پہلے سیاسی انجینئرنگ ہوئی ہو گی‘ پاکستان میں ہمیشہ ہوتی ہے‘1988ء سے 2013ء کے انتخابات تک ہم نے بھر پور مشاہدہ کیا۔ لیکن 25جولائی کی شام نتائج میں ردوبدل اگر ہوا تو تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف ہوا‘ حق میں نہیں‘ چند ماہ قبل چار پانچ معتبر صحافیوں کی موجودگی میں شریف خاندان کے ایک قابل اعتماد قریبی ساتھی اور خیر خواہ نے یہ انکشاف کیا کہ رات گیارہ بارہ بجے ابتدائی انتخابی نتائج سے جب یہ واضح ہو گیا کہ عمران خان قومی اسمبلی کی ایک سو چالیس سے ایک سوپچاس نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں آ رہا ہے کیونکہ اس وقت تک تحریک انصاف کو ایک سو بیس نشستوں پر واضح برتری تھی تو ان کے بقول میاں شہباز شریف نے اپنے بہترین روابط کو بروئے کار لا کر مقتدر حلقوں کو باور کرایا کہ عمران خان کی دو تہائی اکثریت بہت سے مسائل پیدا کرے گی اور ہمارے لئے ان نتائج کو تسلیم کرنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو گا‘ تب کہیں جا کر الیکشن کمشن کے انتخابی سسٹم میں خرابی پیدا ہوئی اور بعد میں نتائج کو جیسے بریک لگ گئی۔ جب عام انتخابات سے دو ہفتے قبل میاں نواز شریف اپنی عقاب صفت صاحبزادی کے ساتھ اڈیالہ جیل پہنچ گئے‘ مسلم لیگ کے گڑھ لاہور میں میاں صاحب کے متوالے کثیر تعداد میں استقبال کے لئے جمع ہو سکے نہ انہیں ایئر پورٹ کا راستہ یاد رہا‘ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک وزیر اعظم عمران خان کے نعرے گونجنے لگے‘ ہر راستہ بنی گالہ کو جارہا تھا‘ تبدیلی کے طاقتور بیانئے کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن)عوام کے لئے کوئی پرکشش اور مفید بیانیہ تشکیل نہ دے پائی تو عمران خان اور تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی میں رکاوٹ کون‘ کس طرح ڈالتا؟ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا شتر گربہ بیانیہ چودھری نثار علی خاں اور میاں شہبازشریف کو متاثر نہ کر سکا ۔سیدھا سادہ ووٹر کیسے متاثر ہوتا‘ جو ہمیشہ جیتنے والے اُمیدوار کو ووٹ دے کر ثواب دارین حاصل کرنے کا عادی ہے۔ میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھی ماضی کے مزاروں پر دیے جلانے کے بجائے اب مستقبل کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے ان داخلی تضادات پر قابو پائیں جو مسلم لیگ کی صفوں اور شریف خاندان کے اندر موجود ہیں‘ مسلم لیگی کارکنوں اور ووٹروں کو بالوضاحت یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ میاں نواز شریف کا سیاسی جانشین کون ہے؟ مریم نواز‘ میاں شہبازشریف یا حمزہ شہباز؟۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی عدم موجودگی اور خلوت نشینی میں کارکن میاں شہباز شریف سے رہنمائی حاصل کریں یا شاہد خاقان عباسی سے؟مسلم لیگ (ن) قومی مفاہمت کے حق میں ہے یا فوج اور دیگر قومی اداروں کو شکست دے کر اقتدار کے ایوانوں میں داخلے کی خواہش مند؟وغیرہ وغیرہ یہ بھی بتانا ہو گا کہ شریف خاندان کا اگلا سیاسی سربراہ کون ہے؟ مریم نواز یا حمزہ شہباز شریف؟ جب میاں نواز شریف خاندان کے سربراہ اور مسلم لیگ(ن) کے قائد کی حیثیت سے معاملات کو اب بھی مبہم رکھنے پر مُصر ہیں اور پارٹی کی مکمل باگ ڈور شہباز شریف کے حوالے کرنے پر تیار نہیں تو اسٹیبلشمنٹ میاں شہباز شریف کی کسی یقین دہانی پر کھلے دل سے اعتماد کیسے کرے؟ عوام کو جب یہ علم ہے کہ شریف خاندان بھی حصول اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کا خواہاں ہے اور ’’خلائی مخلوق‘‘ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ٹائپ نعرے بازی محض انہیں بے وقوف بنانے کا وقتی مشغلہ ہے تو وہ بھلا ان پر کیوں توجہ دیں‘ رہی بات حکومت کی تبدیلی اور متبادل کے تلاش جیسے ڈھکوسلے کی تو یہ الگ موضوع ہے تفصیلی بحث و تمحیص کا متقاضی۔ فی الحال تو قدرت نے عمران خان کے روبرو مواقع کی کہکشاں سجا دی ہے ؎ موسم اچھا‘ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا‘ وہ کیسا دہقان اپنی خودی پہچان او غافل افغان