نیلسن منڈیلا نے کہا تھا سیاستدان اگلے الیکشن اور لیڈر اگلی نسل کے مستقبل کا سوچتا ہے۔ پاکستان کا المیہ مگر یہ ہے کہ ہمارے لیڈر اپنے خاندان اور اپنی نسل سے آگے کبھی دیکھ ہی نہ پائے۔ دنیا بھر کی طرح یہاں سیاست تو اقتدار کے حصول کے لئے ہوتی ہے مگر اقتدار کو عوام کے بجائے اپنے مفاد اور لوٹ مار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاست کے تجارت بننے کی گواہی ماضی میں جنرل مشرف کے مارشل لاء کے مقابلے اور نواز شریف کو مشرف کی قید سے رہائی دلانے کے لئے چلائی گئی تحریک اے آر ڈی کے دوران نواب زادہ نصراللہ خان ان الفاظ میں دے چکے ہیں کہ میں نے نواز شریف کو سیاستدان سمجھا مگر وہ تاجر نکلا اور ایک آمر سے سودا کر کے ملک سے فرار ہو گیا۔ اس وقت نوابزادہ نے نواز شریف کو پہچاننے میں غلطی اور اس کا اعتراف کیا۔ہمارے سیاستدانوں کا کمال یہ ہے کہ یہ عوام کے دکھ میں نڈھال ہی دکھائی دیں گے۔ دعویٰ دھیلے کی کرپشن ثابت ہونے پر قبر سے نکال کر لٹکانے کا مگر لوٹ مار کی کمائی کے اربوں روپے کلرکوں اور چپڑاسی کے اکائونٹس میں چھپاتے ہیں ۔ بات بہن بیٹیوں کو عدالتوں میں گھسیٹنے کی دی جاتی ہے مگر کرپشن کی کمائی بھی اپنے گھر کی باپردہ خواتین کے اکائونٹس میں ٹی ٹیز کی صورت میں منگوائی جاتی ہے ۔ احتساب کے ادارے منی ٹریل طلب کریں تو ان کو خوفزدہ کرنے کے لیے پتھر برسائے جاتے ہیں۔دن میں بات سویلین بالادستی اور عوام کے اختیار اور اقتدار کی بحالی کی جاتی مگر رات کے اندھریوں میں اقتدار اور ریلیف کی بھیک مانگی جاتی ہے۔ حکومت آئینہ دکھائے تو بیکل اتساہی کا کہا صادق محسوس ہوتا ہے آئینہ پوچھے گا جب رات کو کہاں تھے صاحب اپنی بانہوں میں وہ اپنے ہی کو بھینچے ہوں گے ایک بھائی اے پی سی میں دن کو سابق صدر کی طرح اینٹ سے اینٹ بجاتا ہے تو برادر خورد رات کی تاریخی میں خاندان کے لئے ریلیف ڈھونڈتا ہے۔ برادر خورد ہی نہیں، بڑے میاں بھی تو اسی کشتی کے سوار رہے ہیں جس میں آج کل چھید کرنے پر تلے ہیں۔ برادرم رانا محبوب اختر نے گزشتہ رات ایک ویڈیو کلپ واٹس اپ کیا جس میں بڑے میاں صاحب ایک غیر ملکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمار ہے ہیں کہ میں مرحوم صدر ضیاء الحق کی پالیسیوں سے بہت متاثر ہوں، انہوں نے ملک کے لئے بہت اچھا کام کیا اور انہوں نے ملکی سیاست میں اچھی روایت ڈالی جس کے ملک پر بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔میں ان کی پالیسی کو جاری رکھنا چاہوں گا۔ آج میاں صاحب سول بالادستی کا انقلاب لانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دوسری طرف اپنے سندھ کے گورنر کو اپنے اور انقلابی بیٹی کے لئے ریلیف مانگنے اسی اسٹیبلشمنٹ کے درپے بھیجتے ہیں جس کے بارے میں مریم نواز دعویٰ کرتی ہیں کہ نواز شریف کا کوئی نمائندہ عسکری قیادت سے نہیں ملااور مبینہ طور پر یہ رابطے عین اسی طرح ہو رہے تھے جس طرح کلثوم نواز نوابزادہ کے ساتھ مشرف کے خلاف تحریک چلانے کی بات کر رہی تھیں اور رات کو ریلیف مانگا جا رہا تھا اس وقت تو ڈبل گیم کامیاب ہوئی اور خاندان سعودی عرب کے سرور پیلس میں پہنچ گیا مگر اس بار مقتدرہ نے بھی دوسری بار سوراخ سے ڈسے جانے سے انکار کر دیا ۔ سول بالادستی کے عشق کا یہ کھیل اس شرائط پر کھیلا جا رہا ہے کہ جیتوں تو تجھے پائوں اور ہاروں تو پیا تیری۔جمہوریت کے نام پر مفادات اور ریلیف کی اس بازی میں مولانا فضل الرحمن اپنی خدمات اس شرط پر فراہم کر رہے ہیں کہ جس حکومت میں ان کا حصہ نہیں اس میں نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔پہلے مولانا نے اسلام آباد دھرنے کے کور فائر کے ذریعے نواز شریف کو لندن بھجوایااب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے استعفوں سے اقتدار میں اپنے حصے کی راہ ہموار کرنے کے جتن کر رہے ہیں ۔اس کھیل میں مولانا ہی واحد شخص ہیں جن کے پاس ہارنے کے لئے کچھ نہیں۔ اس لئے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے اسمبلیوں سے استعفیٰ کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ جانتے نہ ہوں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے جن ہاتھیوں پر سوار ہو کر وہ نظام کو نیست و نابود کرنے نکلے ہیں یہ پورس کے ہاتھی ثابت ہوں گے ،سب پہ بھاری زرداری ہی تھے جو لندن میں بے نظیر کے نواز شریف سے میثاق جمہوریت میں آئندہ عسکری قیادت کو سیاست سے دور رکھنے کے وعدے کے باوجود دبئی میں جنرل مشرف کے نمائندے بریگیڈیئر نیاز سے بے نظیر کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار کر رہے تھے اور نواز شریف سعودی حکمرانوں کے ذریعے جلا وطنی کے خاتمے کے لئے معافی تلافی کے راستے تلاش کر رہے تھے ۔خود مولانا فضل الرحمن جو ڈنکے کی چوٹ پر سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی بات کرتے ہیں اور بقول وزیر ریلوے کے ملک میں فر۱قہ وارانہ فسادات پھیلانے کی سازش رچا رہے ہیں ان کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ افغان جنگ میں ان کے اس مذہبی کارڈ کے سب خریدار امریکہ تک کن کے کندھے پر سوار ہو کر پہنچے تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے سیاست کے سینے دل نہ ہونے کا انکشاف کیا تھا مگر ہمارے ہاں تو سیاست میں ضمیر اور اصول بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ۔ہمارے لیڈروں کے دن کی روشنی میں چہرے جمہوریت کے نور سے چمکتے ہیں تو رات کو آمروں کی ٹارچ کی روشنی میں نشان منزل ڈھونڈ تے ہیں۔ ندا فاضلی نے ان کے بارے میں ہی کہا تھا: ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی جس کو بھی دیکھنا کئی بار دیکھنا