کیا باکمال شخص تھا‘دیانت کا پیکر‘شرافت کا پُتلا‘ قناعت کا استعارہ اور صحافت کا روشن چاند ستارہ‘قدرت اللہ چودھری کو مرحوم لکھتے کلیجہ مُنہ کو آتا ہے‘سال سواسال کے دوران میں اپنے چند محسن و مہربان دوستوں سے محروم ہو گیا‘پہل ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے کی‘پچھلے سال کورونا سے لڑتے بھڑتے اگلے جہاں چل بسے‘رئوف طاہر نے جنوری میں الوداع کہا‘ عارف نظامی نے عیدالاضحی کے دن اپنے چاہنے والوں کو سوگوار کیا اور کل قدرت اللہ چودھری خالق حقیقی سے جا ملے۔ قدرت اللہ چودھری سے ربط ضبط 1981ء میں بڑھا جب میں روزنامہ جنگ کے میگزین سیکشن کا حصہ بنا‘سینئر کے طور پر چودھری صاحب نے قدم قدم پر رہنمائی کی اور صحافت کے اسرار و رموز سکھائے‘صرف صحافت ہی نہیں دیگر شعبوں میں بھی عموماً جونیئرز کو اپنے سینئرز سے ہمیشہ یہ شکائت رہتی ہے کہ وہ اپنی سنیارٹی اور بزرگی کا فائدہ اٹھا کر انہیں زچ کرتے ہیں‘طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے اور ٹکنے نہیں دیتے‘قدرت اللہ چودھری مگر ایسے نہ تھے‘وہ اپنے جونیئرز سے بزرگ کے بجائے بڑے بھائی کے طور پر پیش آتے جو فارسی محاورے ’’سگ باش برادر خورد مباش‘‘ پر یقین نہیں رکھتا‘مشفقانہ رہنمائی اور دوستانہ سرپرستی قدرت اللہ چودھری کو دوسرے سینئرز سے ممتاز کرتی اور جونیئرز کو ان کا گرویدہ بنا لیتی۔ظہور عالم شہید اور وحید قیصر جیسے شہرہ آفاق نیوز ایڈیٹرز کی شاگردی اور صحبت نے انہیں کندن کیا اور وہ روزنامہ نوائے وقت‘جنگ جیسے بڑے اور ثقہ اخبارات میں نیوز ایڈیٹر اور پھر روزنامہ دن اور پاکستان میں بطور ایڈیٹر اپنی صلاحیتوں کا سکّہ منواتے رہے۔ قدرت اللہ چودھری صحافیوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے صحافت جن کا اوڑھنا بچھونا تھا‘عشق اور نظریہ تھا اور رزق حلال کمانے کا ذریعہ۔وہ عشق میں دنیا داری کے قائل تھے‘نظریے میں دوئی کے متحمل اور نہ پیشے میں کھوٹ کے روادار۔وہ صحافتی عروج کے زمانے میں چاہتے تو اپنے ہم عصروں کی طرح حکمرانوں اور ان کے نفس ناطقہ بیورو کریٹس سے خوب فوائد سمیٹ سکتے تھے‘میاں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پلاٹوں کی لوٹ سیل لگی تھی اور حسین حقانی کے علاوہ‘محمد حسین ملک سے ان کے قریبی مراسم تھے‘ایک بار یہ درویش صفت انسان ان مراسم کی بھینٹ چڑھا اور ملازمت گنوا بیٹھا مگر وقت کے حکمران سے اس ’’قربانی‘‘ کا صلہ طلب کرنا تو درکنار‘کسی دوسرے ادارے میں ملازمت کے لئے سفارش کی خواہش تک نہ کی‘میاں نواز شریف کی سیاست کے وہ اوّل دن سے مداح تھے اور پیپلز پارٹی و تحریک انصاف کے ہمیشہ ناقد مگر اپنے اُصولی موقف کو کبھی ایوان اقتدار تک رسائی کا ذریعہ بنایا نہ موزوں دام وصول کرنے کا سوچا۔ملک محمد حسین‘شعیب بن عزیز اور ڈاکٹر شفیق چودھری قدرت اللہ چودھری صاحب کی خداداد صحافیانہ صلاحیتوں کے معترف‘ شخصیت کے قدردان اور بے تکلف دوست تھے‘چودھری صاحب چاہتے تو ان بے تکلف اور قدردان دوستوں کے ذریعے میاں نواز شریف‘میاں شہباز شریف اور چودھری پرویز الٰہی سے مراعات لے سکتے تھے مگر قناعت پسند صحافی نے کبھی دوستانہ تعلقات پر ’’خواہشات‘‘ و ’’مفادات‘‘ کا مکّروہ سایہ نہ پڑنے دیا‘اس باعث نماز جنازہ میں محترم مجیب الرحمن شامی کی طرح شعیب بن عزیز اور ڈاکٹر شفیق چودھری بے حد غمگین و سوگوار نظر آئے۔ چودھری صاحب صرف اچھے نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر نہ تھے‘اللہ تعالیٰ نے انہیں مطالعہ کے شوق ‘ لفظوں کے موزوں استعمال اور جملوں کی ساخت پرداخت کے ہنر سے نوازا تھا‘طبعی قناعت پسندی نے مگر انہیں کالم نویسوں کی دوڑ میں شامل نہ ہونے دیا اور وہ ایڈیٹر ہو کر بھی نیوز روم تک محدود رہے ‘خوش مزاج تھے اور بے ساختہ مزاح کے عادی‘ تاہم مزاح میں شائستگی کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے اور ادنیٰ لفظ کبھی زباں پر نہ لاتے‘مجھے چودھری صاحب کے ساتھ کئی بار سفر کا موقع ملا‘کسی شخص کی پہچان کے لئے سفر اور قرض کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہترین پیمانہ قرار دیا‘دوران سفر چودھری صاحب بہترین انسان کی ہر کسوٹی پر پورا اُترے‘ مجھے 1990ء کے ابتدائی عشرے میں امریکی محکمہ اطلاعات کی طرف سے دورہ امریکہ کا دعوت نامہ ملا‘برادرم اظہر زمان ان دنوں لاہور میں امریکی مرکز اطلاعات کے مدار المہام تھے اور انہوں نے دورے کا اہتمام کیا‘میں طویل عرصے تک اظہر زمان کا شکر گزار رہا کہ انہوں نے مجھے امریکی میڈیا کے اہم مراکز تک رسائی اور معلومات میں اضافے کا موقع فراہم کیا مگر چند سال قبل اظہر زمان نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ مطالعاتی دورے کے لئے میرا نام قدرت اللہ چودھری صاحب نے تجویز کیا تھا اور ہدائت کی تھی کہ ان کا نام صیغہ راز میں رہے‘ دوست نوازی کا یہ انداز چودھری قدرت اللہ کا طرہ امتیاز تھا۔ چودھری صاحب نظریاتی صحافی تھے‘ اسلام اور پاکستان سے ان کی کمٹ منٹ ہر قسم کے شک و شبے سے مبّرا مگر تنگ نظری انہیں چھو کر نہیں گزری تھی‘ایک کشادہ قلب اور عالی ظرف انسان کے طور پر ہر سیاسی اور مذہبی مکتب فکر کے لوگوں سے ان کے مراسم تھے اور ہر جگہ ان کا احترام کیا جاتا تھا‘گزشتہ کئی سال سے چودھری صاحب محترم مجیب الرحمن شامی کے روزنامہ پاکستان سے بطور ایگزیکٹو ایڈیٹر وابستہ تھے‘اس دوران کئی نئے اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی‘لازمی طور پر انہیں معقول پیشکشیں بھی ہوئیں مگر وہ ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘ کے اصول پر قائم رہے ؎ اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھا آئینے کو لپکاہے پریشاں نظری کا قدرت اللہ چودھری کی کس خوبی کا ذکر کروں‘ دوستوں کا دوست‘ فیض رساں‘ مہربان‘شفیق‘ اور بااُصول ؎ جس کی خوشبو سے مہک جائے شبستان و صال دوستو تم نے کبھی وہ صحرا دیکھا