لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی نے کہا ہے کہ جسٹس میاں ثاقب نثار اچانک اس قدرفعال کیوں ہوئے اسکا وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں انکے ازخودنوٹسز پر ساتھی ججز کو بھی تحفظات تھے ۔چینل92نیوزکے پروگرام’’92ایٹ8‘‘میں میزبان سعدیہ افضال سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بارہا کہا کہ ثاقب نثار نے اپنے کاموں پر توجہ نہیں دی،وہ سول اورقانونی سائیڈ کے جج تھے تاہم جاتے جاتے اچھے اور بڑے فیصلے بھی لکھے ۔میرے خیال میں نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی 184 تھری کو استعمال کرینگے لیکن اس پیمانے پر نہیں کرینگے جس طرح ثاقب نثار نے کیا۔ جب اداروں میں خلا ہو تو کبھی فوجی اور کبھی عدالتی مداخلت ہوتی ہے ، اسلئے پارلیمنٹ کو اپنی ذمہ داری نبھاناچاہئے ۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادرنے کہاکہ افتخار چودھری نے جوڈیشل ایکٹوزم کی ابتدا کی تھی اور ثاقب نثار نے اسکی انتہا کردی،اس ساری چیز کا اختتام جسٹس آصف سعید کھوسہ کی پہلی ہی تقریر میں ہوگیا ، انکی تقریر ثاقب نثار کی پالیسی سے مکمل اجتناب ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ ثاقب نثار اچھے وکیل اورجج تھے لیکن جب وہ چیف جسٹس بنے تو خود کو مسیحا کے طورپر سامنے لیکرآئے ۔جب عدالت حکومت کرنا شروع کردیتی ہے تو نقصان عدلیہ کا ہوتا ہے ۔ماہرقانون عارف چودھری نے کہاکہ ثاقب نثار نے کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے ۔ جن معاملات میں حکومت کچھ نہیں کرتی عدالت نوٹس لے سکتی ہے ، البتہ ثاقب نثار اپنی کریز سے نکل کرکھیلے ،سپریم کورٹ کا وقار بھی بلند کیا۔ میری التجا ہے وہ مہمندڈیم کی تعمیر والی جگہ پر جھگی ضرور ڈالیں لیکن سیاست میں نہ آئیں۔ انہوں نے بڑے تاریخی فیصلے کئے لیکن ایک ہی روز میں ڈیڑھ سو کے قریب مقدمات کو سنے بغیر خارج کرنا اچھا نہیں تھا۔نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے پاس ایک سال ہے ا نکا مزاج سابق چیف جسٹس سے سے مختلف ہے ۔ جسٹس کھوسہ نے سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمات کے ا لتواکو ختم کیا، وہ ٹھنڈ ے مزاج کے ادبی آدمی ہیں ۔ماہر قانون ریاست علی آزاد نے کہاکہ سائلین کو آج بھی مشکلات کا سامناہے ۔ ثاقب نثار نے ا پنے ادارے کو ٹھیک نہیں کیا اور دیگر اداروں میں مداخلت کرتے رہے ، کبھی کبھار جذبات میں آجاتے تھے ۔