سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزام پر مبنی صدارتی ریفرنس متعدد سماعتوں کے بعد جمعہ کے روز مسترد کر دیا ہے۔ معزز عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ہدایت کی کہ وہ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہل خانہ سے ان کے نام موجود آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور اس سلسلے میں استعمال ہونے والی رقوم کے ذرائع کی تحقیق کرے۔فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی اور 17جولائی 2019ء کو جاری اظہار وجوہ کے نوٹس کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی کارروائی 60روز میں مکمل کرے‘یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ تحقیقات کے لئے فراہم کی گئی مدت میں توسیع نہیں ہو گی اور چیئرمین ایف بی آر خود اس تحقیقاتی رپورٹ پر دستخط کریں گے۔ یہ رپورٹ رجسٹرار سپریم جوڈیشل کونسل کو پیش کی جائے گی۔ مختصر فیصلے میں 7ججوں نے معاملہ ایف بی آر بھجوانے کا فیصلہ کیا جبکہ تین نے اختلاف کیاہے ۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں حکومتی ردعمل میں کہا کہ عدالتی فیصلہ کسی کی جیت یا ہار نہیں۔ حکومت فیصلے سے مطمئن ہے۔ انتظامیہ کا اس سلسلے سے کوئی تعلق نہیں‘ انہوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی آئے گا اس لئے مختصر فیصلے پر مزید کوئی بات نہ کی جائے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب نے عندیہ دیا کہ حکومت کا فیصلے کے خلاف اپیل کا ارادہ نہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ معاشرے میں بلا امتیاز احتساب اور قانونی کی حکمرانی کے ضمن میں کی گئی کوششوں کو کسی نہ کسی وجہ سے متنازع بنا کر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں ایسی بدنما مثالیں موجود ہیں جب اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج حضرات کی شہرت‘ نیک نامی اور بسا اوقات جان کے لئے خطرات پیدا کئے گئے، ملک میں ایک ایسا نظام مضبوط ہو چکا ہے جو سیاستدانوں کوہر معاملے میں مداخلت کرنے کو اکساتا ہے۔یہ سیاستدان ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ سے کھلواڑ کرتے رہے۔ بدقسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ پر حملے کا معاملہ ہو‘ من پسند افراد کو اعلیٰ عدلیہ میں جج تعینات کرانے کی بات ہو یا پھر اپنے مقرر کردہ ججوں کے ذریعے من پسند فیصلے کروانے کا داغ ہو۔ یہ سب محض الزامات نہیں بلکہ سچ کی صورت میں مسلم لیگ ن کے دامن پر چسپاں ہیں۔ بلا شبہ انتظامیہ ‘ فوج اور عدلیہ تین اہم ستون ہیں اور کسی جمہوری اور ترقی یافتہ ریاست کی شکل اسی وقت ابھرتی ہے جب ان اداروں کے مابین تعاون اور ہم آہنگی فروغ پاتی ہے۔ کیا المیہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کو اداروں کے درمیان تصادم بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔اپوزیشن نے بلاسوچے سمجھے مطالبہ داغ دیا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے ریفرنس کو مسترد کر دیا ہے اور اسے دبائو میں لانے کی مذموم کوشش تھی۔ خصوصاً مسلم لیگ ن اسے عدلیہ پر حملے کا منصوبہ قرار دینے کا تاثر بنا رہی ہے۔حالانکہ اسی مسلم لیگ نے ماضی میں عدلیہ پر حملہ کیا ،ججز پر دبائو ڈال کر فیصلے لیے ، ابھی تین سال پہلے کی بات ہے جب اس معزز سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کی سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی کو فریضہ سونپا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے۔ اس جے آئی ٹی نے نواز شریف خاندان سے آف شور کمپنیوں اور جائیدادوں کی منی ٹریل سے متعلق پوچھا۔قانونی عمل کا سامنا کرنے کی بجائے شریف خاندان کے بعض افراد اور ان کے ساتھی عدالتی جے آئی ٹی آفس کے باہر دن میں کئی بار پریس کانفرنس کرتے۔ اپنے اوپر الزامات کاجواب دینے کی بجائے عمران خان اور دیگر شخصیات کی آمدنی اور جائیدادوں سے متعلق سوال اٹھائے جاتے۔ کون نہیں جانتا کہ جب علیمہ خان نے اپنے گارمنٹس بزنس سے متعلق تحقیقاتی اداروں کو بتایا تو ان کی سلائی مشینوں پر سیاسی لطیفے بنائے گئے۔ بعض حلقے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن پر اسی انداز میں تبصرے کر رہے ہیں۔ یہ نامناسب طرز عمل ہے اور ہمارے رویوں میں اصلاح کا تقاضا کرتا ہے۔اس رویوں سے اداروں کے مابین کشیدگی پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں اور پھر ایک ایسے وقت پر جب کسی کے کیس یا ریفرنس پر باقاعدہ سماعت ہو رہی ہو ،اس لیے ہمیں ایسی چیزوں سے گریز کرنا چاہیے۔اپوزیشن جماعتوں نے اس موقع پر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا، جو باعث افسوس ہے ۔کیس کی سماعت کے دنوں میں اپوزیشن جماعتیں آئے روز ریفرنس پر تنقید کرتی نظر آئی ہیں جبکہ فیصلے پر بھی اپوزیشن رہنمائوں کے تبصرے قومی یکجہتی سے متصادم تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لحاظ سے لائق احترام ہے کہ معزز عدالت نے معاملے کے ان گوشوں کو اجاگر کرنے کی بات کی ہے جو ایک معزز جج پر الزامات کی بنیاد بنے۔ امکان غالب ہے کہ ایف بی آر اس سلسلے میں دیے گئے وقت کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کر کے رجسٹرار سپریم کورٹ کو رپورٹ جمع کرا دے گا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل معاملے کی سماعت کرے گی۔یوں ہمارے سامنے ایک قانونی طریقہ کار آ گیا کہ ججز کے خلاف مس کنڈکٹ الزامات پر سماعت اور فیصلے کے لئے کون سا پلیٹ فارم ہو گا۔ یہ فیصلہ بجا طور پر ان لوگوں کے لئے جیت ہے جو اداروں کے مابین ہم آہنگی کے خواہاں ہیں۔