چھوٹے خواب نہ دیکھو‘ ان میں طاقت نہیں کہ روح میں تحریک پیدا کر سکیں۔ (گوئٹے) کینیڈا کے جواں سال وزیراعظم نے اپنے ملک کی لبرل جماعت کی قیادت کے لیے مہم کا اکتوبر 2012ء میں اپنی تقریر کی ابتدا جرمن شاعر اور دانشور گوئٹے کے درج بالا قول سے کی۔ ٹروڈو نے تقریباً ایک سال تک انتھک محنت کی اور اپنی سچی محبت سے کینیڈین عوام کے دلوں میں گھر کرلیا۔ جسٹن ٹروڈو سے جو کوئی مل کر آتا ہے وہ اس کے گن گاتا ہے اور اس کی انکساری و ملنساری کی بہت تعریف کرتا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات دو اچھے پڑوسیوں کی طرح ہوں گے۔ جیسے امریکہ اور کینیڈا کے ہیں۔ اسے حسن اتفاق کہیے کہ انہی دنوں مجھے جسٹن ٹروڈو کی خودنوشت ’’کامن گرائونڈ‘‘ مل گئی۔ پاکستان کے خلاف نریندر مودی کی ہرزہ سرائی اور جنگی ماحول کی تلخی زائل کرنے میں ٹروڈو کی دلچسپ کتاب نے میرا بہت ساتھ دیا۔ قارئین کے لیے بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 200 برس سے کینیڈا کے اپنے سے دس گنا بڑے ملک امریکہ کے ساتھ بہت اچھے اور نہایت مثالی تعلقات قائم ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حال یہ ہے کہ کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی باہمی تجارت کے کسی اختلافی مسئلے پر ٹرمپ آپے سے اتنے باہر ہوئے کہ انہوں نے ایک بیان میں جسٹن ٹروڈو کو کمزور اور بددیانت وزیراعظم قرار دے دیا۔ اس پر ساری دنیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے پر سخت حیرت کا اظہار کیا کہ ان دو ممالک کے صدیوں سے بہترین سیاسی‘ تجارتی‘ ثقافتی اور سماجی تعلقات ہیں‘ جنہیں نظرانداز کر کے ڈونلڈ ٹرمپ نے انتہائی نامناسب رویہ اختیار کیا۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کاش پاکستان اور بھارت کے ایسے مثالی تعلقات ہوتے۔ جسٹن ٹروڈو 1971ء میں وزیراعظم ہائوس 25 سسیکس اٹاوہ میں پیدا ہوئے اور بارہ تیرہ برس تک پلے بڑھے مگر ذرا اس طریق تربیت کی ایک دو جھلکیاں دیکھئے جو جسٹن کے وزیراعظم والد اور خاتون اول نے اپنے صاحبزادوں کے لیے اختیار کر رکھا تھا۔ جسٹن کی زبانی سنئے۔ ’’جب میں آٹھ سال کا تھا والد صاحب مجھے پارلیمنٹ ہل لے گئے جہاں ہم نے ایک ریستوران میں کھانا کھایا۔ کھانے کھاتے ہوئے جب میری نگاہ اوپر اٹھی تو سامنے حزب اختلاف کی پروگریسو کنزرویٹو جماعت کے لیڈر جوکلارک نظر آئے۔ میں نے جوکے بارے میں والد صاحب کو ایک احمقانہ لطیفہ سنایا جسے میں نے سکول میں سن رکھا تھا۔ والد صاحب کو میرا لطیفہ سنانا بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے مجھے ایک سخت لیکچر دیا کہ اپنے مخالف کے موقف کے خلاف بولنے کا کیا طریقہ ہے نیز مجھے کسی شخص کی ذاتیات پر کبھی حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اس سلسلے میں جسٹن ٹروڈو نے ایک اور واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ’’لوگوں کی کوئی بھی حیثیت یا کوئی بھی منصب ہو ان کا احترام کرنا ان اہم اسباق میں سے ایک تھا جو والد صاحب نے بچپن سے ہمیں گھول کر پلایا تھا۔ ہماری ہائوس کیپر ہلڈا گارڈویسٹ گھر کے ہر فرد کا بہت خیال رکھتی تھی اور نہایت خوش اخلاق خاتون تھی۔ شاید اس کے احترام میں میری طرف سے کسی کوتاہی کی بنا پر میری والدہ نے مجھے ایک طرف کر کے کہا ’’جسٹن تم اپنی زندگی کے دوران بادشاہوں اور ملکائوں سے ملو گے‘ صدور سے ملو گے‘ تمام لوگ جو طاقت اور عزت رکھتے ہیں لیکن ان کا کوئی منصب بھی ہو ایک بات یاد رکھو ان میں بہت سے یہ حیثیت انسان وہ قدروقیمت نہیں رکھتے جو ہلڈا رکھتی ہے۔‘‘ جسٹن ٹروڈو کو اپنے بچپن میں اپنے وزیراعظم کے والد کے ساتھ ان کے بیرونی دوروں میں ساتھ جانے کا کبھی کبھی موقع ملتا رہتا تھا۔ ذرا ان سفروں کی بھی ایک جھلک جسٹن کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔ ’’اپنے والد صاحب کے ساتھ ان سفروں کا سب سے قیمتی حصہ وہ تھا جب مجھے یہ دیکھنے کا موقع ملتا تھا کہ میرے والد اپنے فیصلے کس طرح کرتے تھے۔ وہ دوران پرواز سوالات کرتے رہتے تھے اور اپنے اردگرد موجود لوگوں سے تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے۔ وہ بالعموم اپنا نقطہ نظر اس وقت تک بیان نہ کرتے جب تک وہاں موجود ہر ایک اپنی رائے کا اظہار نہ کر چکا ہوتا۔ میرے والد صاحب کا کوئی بھی فیصلہ ہوتا اس میں بہت سے لوگوں کی رائے شامل ہوتی تھی۔ فیصلہ کرنے کا جو نمونہ میں نے 707 کی پرواز کے دوران سیکھا اس نے میرے اپنے قیادت کے انداز کو بہت متاثر کیا ہے۔‘‘ اپنے بچپن سے ہی کبھی امریکی اور کبھی روسی صدر اور اس طرح کی بڑی بڑی شخصیات مل کر اور اسی فضا میں جوان ہونے کے باوجود جسٹن ٹروڈو اس ساری شان و شوکت اور چکاچوند سے ہرگز مرعوب نہ ہوئے۔ جسٹن نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے میک گل یونیورسٹی سے انگریزی ادب کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں بھی چار سالہ اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ انجینئرنگ اور موسمیاتی جغرافیا کے بھی ایک ایک سالہ کورسز کئے۔ اتنی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے بعد جسٹن نے اپنی زندگی کا پہلے مرحلے پر جو لائحہ عمل طے کیا تھا اس کا احوال بھی ان کے ہی الفاظ میں پڑھ لیجئے۔ ’’ان گرمیوں میں ایک پہاڑی مقام پر جب میں نے خاموشی سے دوبارہ غور کیا تو مجھے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل یہ نظر آیا کہ میں سکول کا استاد بنوں گا۔ میں چاہتا تھا کہ میں لوگوں کو سکھائوں اور ان سے سیکھوں۔ میری سوچ یہ تھی کہ اس طرح میں اپنے خاندان اور اپنے ماضی سے خود کوآزاد کرلوں گا اور یوں معاشرے کا ایک مفید مگر غیر معروف شخص بن کر زندگی گزاروں گا۔ میں نے بڑے جوش سے اپنے اس غیبی انکشاف میں گھر والوں کو شریک کیا۔ میری ماں بولیں ’’جسٹن کیا عمدہ فیصلہ ہے۔‘ ماضی میں سکاٹ لینڈ میں تمہارا تعلق سکول کے استادوں کی ایک لمبی قطار سے ہے۔‘‘ اللہ اللہ تین مرتبہ پندرہ برس تک وزیراعظم کی بیگم اپنے بیٹے کے استاد بننے کے فیصلہ کا احترام کرتی ہے اور ہماری سوچ اپروچ کے مطابق اس سے یہ نہیں کہتی کہ کیا تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے سیاستدان کا بیٹا ایک ٹیچر بنے گا۔ وزارت عظمیٰ اس کا خاندانی حق ہے۔ اس ترقی یافتہ سوچ پر پہنچنے میں نہ جانے ہمیں اور کتنی صدیاں لگ جائیں گی۔ جسٹن ٹروڈو کی آٹو بائیو گرافی میں ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو ہر صفحے پر سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ’’کامن گرائونڈ‘‘ کا پیرا مائونٹ بک لمیٹڈ نے ’’سانجھی زمین‘‘ کے نام سے نہایت عمدہ ترجمہ اردوداں قارئین کی ضیافت طبع کے لیے پیش کیا ہے۔ 2008ء میں جسٹن ٹروڈو نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ 2013ء میں وہ لبرل پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس کے بعد جسٹن نے کینیڈا کی سیاسی تاریخ میں وہ معجزہ کر دکھایا کہ جسے دیکھ کر ساری دنیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہوں نے اپنی دم توڑتی لبرل پارٹی کو ایوان زیریں میں 34 نشستوں سے اٹھا کر 184 نشستیں دلوائیں اور یوں وہ 2015ء میں کینیڈا کے جواں سال وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ جسٹن ٹروڈو سات آٹھ برس تک قیادت کے جس اعلیٰ معیار کا پرچار کرتے رہے اس پر وہ بحیثیت سیاست دان اور بہ حیثیت وزیراعظم پورے اترے ہیں۔ وہ کینیڈا کو ایک مثالی ملک بنا رہے ہیں جس میں ہر انسان کا احترام کیا جائے۔ وہ گوئٹے کے قول پر آج بھی عمل پیرا ہیں۔ چھوٹے خواب نہ دیکھو‘ ان میں طاقت نہیں کہ روح میں تحریک پیدا کر سکیں۔