اسلام آباد ( خبر نگار) سپریم کورٹ نے جعلی اکائونٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ ملزمان کے خلاف سخت ذمہ داری کا اصول قانون اپنایا جائے گااور بار ثبوت ملزمان پر ہو گا۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کے لئے نام طلب کیے اورقرار دیا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے لئے عدالت کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اس کیس میں بھی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے سے پوچھا کہ پانامہ کے معاملے کی تحقیقات کیلئے جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی ان کے نام تو بتائیے جس پر ایف آئی اے کے سربراہ نے نام بتائے ۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا واجد ضیا جے آئی ٹی کے سربراہ تھے ۔عرفان منگی نیب سے تھے ،بلال رسول ایس ای سی پی سے تھے ۔ ڈی جی ایف آ ئی اے بر یگیڈیئر نعمان کے نام پر پہنچے تو بنچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ ان کا تعلق کس شعبے سے ہے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ا نکا تعلق آئی ایس آئی سے ہے ،ٹیم میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ممبران بھی تھے ، چیف جسٹس نے کہا آئی ایس آئی اورایم آئی کے لوگوں کو چھوڑیں ، فوج کے خفیہ اداروں کے افسران کو پانامہ لیکس کی جے آئی ٹی میں محض تڑکا لگانے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔جعلی اکاونٹس سے رقم کی منتقلی کے مقدمے میں فوج کے خفیہ اداروں کے افسران کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں ۔ چیف جسٹس نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ان کی جماعت الیکشن کمیشن کے باہر عدلیہ کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کرا رہی ہے ۔ فاروق ایچ نائیک نے اس پر معذرت کی اور کہا کہ جب اس احتجاجی مظاہرے میں عدلیہ کے خلاف نعرے لگ رہے تھے تو اسی وقت پیپلز پارٹی کی طرف سے بیان آ گیا تھا کہ ریاستی اداروں کے خلاف نعرے ان کی جماعت کا وطیرہ نہیں ۔ فارق ایچ نائیک نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ جب بھی ایف آئی اے کے حکام کہیں گے تو سابق صدر آصف علی زردرای اور ان کی بہن فریال تالپور تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہو جائیں گے ۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے باہر عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف نعرہ بازی پر ناراضگی کا اظہارکیا اور کہا پاک ناپاک پیسے کی باز پرس پر اتنا شور مچا دیا عدالت آکر بتائیں کہ پیسے پاک ہیں یا ناپاک ۔ عدالت نے حسین لوائی کی طرف سے درخواست ضمانت کا جلد فیصلہ کرنے اورکمپنی کے اکائونٹس غیر منجمد کرنے کے لئے دائر متفرق درخواستیں مسترد کردیں۔ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کی جانب سے وکیل شاہد حامد عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے سوال کیاکہ انور مجید کدھر ہے ؟وکیل رضا کاظم نے یقین دہانی کرائی تھی کہ انور مجید اور دیگر لوگ آئندہ سماعت پر موجود ہوں گے ۔ شاہد حامد نے کہاکہ خدشہ ہے کہ انور مجید کے پیش ہونے پر گرفتار کر لیا جائے گا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا انصاف عدالت نے کرنا ہے ایف آئی اے نے نہیں،ایف آئی اے کے پاس لامحدود اختیار ات نہیں ،انور مجید کو عدالت میں پیشی تک کوئی گرفتار نہیں کرے گا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم انور مجید کا تحریری جواب مسترد کر رہے ہیں، انور مجید کی پیشی تک کوئی جواب قابل قبول نہیں۔عدالت نے انور مجید اور بچوں کو بدھ کو پیش ہونے کی مہلت دیدی۔ بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کے داماد زین ملک عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس کے استفسار پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر مین نے جواب دیاکہ زین ملک تحقیقات میں تعاون کر رہا ہے جبکہ تحقیقات میں مزید 15 اکائونٹس سامنے آئے ہیں، جن میں 6ارب کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اربوں روپے جعلی اکائونٹس میں کدھر سے آئے اوریہ پیسہ جعلی اکاونٹس سے کدھر گیا، انورمجید کے وکیل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ میں تمام ٹرانزیکشن کا حساب دیں گے ۔ اس دوران ایک نجی ٹی وی کا ملازم بھی عدالت میں پیش ہوگیا اس نے کہاکہ ان کا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں،ان کے اکائونٹ میں 80کروڑ کہاں سے آئے علم نہیں۔ بشیر میمن نے کہاکہ نجی کمپنی کریم پر بائیک چلانے والے کی اہلیہ کے اکائونٹ میں ایک ارب سے زائد ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا دیکھ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی تشکیل دے دیں ،کسی نے جے آئی ٹی بنانے پر اعتراض کیا تو موقف سن کر فیصلہ دیں گے ۔ اس دوران انورمجید کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے اپنی جے آئی ٹی بنائی ہوئی ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے کسی کے کہنے پر یہ ایشو نہیں اٹھایایہ بظاہر کرپشن کا معاملہ لگتا ہے اس لئے ازخودنوٹس لیا، بحریہ ٹائون نے 5 ارب روپے جمع کرائے ، آئندہ بدھ کو بحریہ ٹائون کی نظر ثانی درخواست سماعت کیلئے لگا رہے ہیں،بحریہ ٹائون مزید رقم جمع کرائے ، ڈیمز کی تعمیر کے لیے بہت پیسہ چاہیے ۔