مجھے چند ایسے مہربانوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے جو بات بات پہ جناب واصف علی واصفؔ ، بابا اشفاق احمد اور اس طرح کے دیگر صوفی بابوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔یہ ہر موقع پر ان لوگوں کی زندگیوں سے مثالیں اور حوالے دیتے رہتے ہیں ۔ اور ان اقوال اور مثالوں کے زور پر یہ لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ ہر دوسری بات کا آغاز اس طرح کریں گے کہ ، ’’ بابا جی فرما گئے ہیں کہ ‘‘ اور اس کے بعد لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیں گے ۔دوسری طرف ان کی اپنی زندگی پر ان بابوں کی تعلیمات کے کوئی اثرات دکھائی نہیں دیتے ۔ عملی طور پر اخلاقی اقدار سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ بلکہ ان میں سے کئی ایک تو ایسے ہیں کہ اُن کا اپنا طرزِ زندگی دیکھیں تو گھِن آتی ہے ۔عام طور پر لوگوں پے تنقید ان کا وطیرہ ہوتی ہے ۔ ان بابوں کی آڑ میں یہ لوگ اپنے ذاتی ’ فرمودات ‘ بھی ارزاں کرتے رہتے ہیں اور ’ متاثرین ‘ سے وہی داد وصول کرتے رہتے ہیں جس پر یہ اپنے تئیں یہ سوچ کر پھولے نہیں سماتے کہ ان کے اپنے اقوال بھی وہی ’’ ریٹنگ ‘‘ لے رہے ہیں جو ان بزرگوں کے حصے میں آتی ہے ۔ ان جعلی مریدوں کا علاج بالکل شروع میں ہو سکتا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ انہیں بھی اپنے حصے کے بے وقوف پہلے پہل ہی کہیں مل جاتے ہیں جو ان کی ’ پہنچی ‘ ہوئی گفتگو سے متاثر و مرعوب ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا یہ چل پڑتے ہیں اور ایسا چلتے ہیں کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ۔ان حضرات کی طرف سے مختلف بابوں کے ساتھ منسوب کیے گئے اقوال کو دو وجوہات کی بنا پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان بزرگوں کی تمام تصنیفات کو حفظ کیا جائے جو ظاہر ہے تھوڑا مُشکل کام ہے ۔ اور دوسری یہ کہ یہ حضرات ا ن صوفی بابوں کے اوپر ایک ایسا عجیب سا استحقاق جتاتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کے متعلق کوئی ایسی بات کہنے کی ہمت نہیں کرتا جو ان سے تصدیق شُدہ نہ ہو یا ان کے علم میں نہ ہو ۔ فہمی صاحب ہمارے محلّے میں رہائش پزیر ہیںاور ان کا تعلق بھی انہی احباب کے ساتھ ہے۔ یہ اپنے آپ کو جناب واصف علی واصف ؔ اور اشفاق احمد کا مرید و مقلد سمجھتے ہیں ۔ ان کے ارشادات فہمی صاحب کا گویا تکیہ کلام ہیں ۔ یہ انہی ارشادات کے تناظر میں ہر کسی کا قول و فعل ماپتے رہتے ہیں اور پھر ہر کسی پر شدید تنقید کرتے رہتے ہیں ۔ میرے علم میں نہیں کہ محلّے کے کسی شخص کا کردار ان کے ( خود ساختہ ) معیار پر پورا اترتا ہو ۔ویسے تو ہر شخص ہی اُن کے نشانے پر رہتا ہے لیکن کسی کو خاص طور پر ہدفِ تنقید بنانا مقصود ہو توپھر یہ باقاعدہ اُس کے خلاف ان بزرگ صوفیوں کے وہ اقوال ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرتے ہیں جو وہ ایسوں کے لیے کہہ گئے ہیں۔ یہاں تک تو بات چلو کسی حد تک پھر بھی ٹھیک ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ دوسری طرف فہمی صاحب کا اپنا طرزِ عمل حیران کُن بلکہ خوفناک ہے وہ اس لیے کہ بزرگوں کی تعلیمات کی روشنی میں دوسروں کی اصلاح کرتے ان کی عمر گزر گئی لیکن ان کی اپنی زندگی پر ان تعلیمات کا معمولی سا اثر بھی نظر نہیں آتا ۔ انہیں دیکھیںتو لگتا ہے کہ موصوف نے باقاعدہ کوشش اور کمال احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے کہ اُن کے اپنے کردار پر بزرگوں کے ارشادات کا سایہ بھی پڑنے نہ پائے ۔ یہ فرماتے رہتے ہیں کہ حضرت واصف ؔ نے انسانیت سے محبت کا درس دیا اور دوسری جانب یہ خود انسانوں سے مثالی نفرت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔ جب وہ کسی شخص کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں تو ان کے چہرے پہ اُس شخص کے لیے نفرت و حقارت واضح طور پہ محسوس ہو رہی ہوتی ہے ۔ موصوف کے ’ اعلیٰ حُسن اخلاق ‘ کا عالم یہ ہے کہ اُن کے ذاتی ملازم دو چار ہفتوں میں ہی جان کی امان پا کر بھاگ لیتے ہیں ۔ شُنید ہے کہ ملازمہ صفائی کر رہی ہو تو پہلے بیگم صاحبہ اُس کی کلاس لیتی ہیں اور بعد میں یہ موصوف خود ’محدب عدسہ ‘ پکڑ کر آن کھڑے ہوتے ہیں اور اس عدسے کی مدد سے چیک کی گئی صفائی کے معیار کو غیر تسلّی بخش پا کر ملازمہ کی’ عزت افزائی ‘ میںوہ کسر پوری کرتے ہیں جو ان کی بیگم سے غلطی سے رہ گئی تھی ۔چنانچہ روز ایسے اعلیٰ برتائو کی ڈسی ناسمجھ ملازمہ دو چار دن ہی نکالتی ہے اور پھر معذرت کر لیتی ہے۔ اور یہ صاحب ’بجا طور ‘ پر گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ اس عاقبت نااندیش ملازمہ نے مالک سے وفا داری کے حوالے سے فلاں بابا جی کے فلاں قول کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان کے ایک ڈرائیور کو میں نے دیکھا کہ وہ ان کے ہاں کی سابقہ روایت کے خلاف ان کے پاس کوئی چار پانچ مہینے نکال گیا تو مجھے تشویش ہوئی۔بعد میں علم ہوا کہ اُس کے اتنے ’طویل ‘ قیام کی وجہ یہ تھی کہ اُسے بھی مختلف بابوں کے تقریباً اتنے ہی قول یاد تھے جتنے جناب فہمی صاحب کو ! فہمی صاحب تگڑی آسامی ہیں لہٰذا محلے میں ان کے خلاف بات کوئی نہیں کرتا ۔ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا، ’’ حضور ،! یہ جو ارشادات و تعلیمات سے آپ ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں ان پر جناب نے خود کسی اور جنم میں عمل کرنا ہے ۔ موصوف شاید اس طرح کی گستاخی کے لیے تیار نہیں تھے اور یقینا پہلی دفعہ کسی نے اُن کی توجہ اس طرف اور اس انداز میں دلائی ہوگی۔ چنانچہ اگلے کچھ لمحات کے لیے وہ حواس باختہ سے ہو کر سکتے کی کیفیت میں چلے گئے۔ انہیں شاید میرے گستاخانہ سوال کا نہ تو کوئی جواب سوجھ رہا تھا اور نہ ہی اس کے جواب میں کسی بزرگ کا قول ۔ چنانچہ صورت حال کی گھمبیرتا کو بھانپتے ہوئے میں نے مودبانہ سی اجازت چاہی اور وہاں سے کھسک لیا۔اُس دن سے فہمی صاحب کے ساتھ میری بول چال بند ہے اور سنا ہے تب سے وہ اہلِ محلہ کو بتا تے رہتے ہیں کہ میرے جیسے جاہلوں کے لیے حضرت واصفؔ اور بابا اشفاق صاحب کیا فرما گئے ہیں ۔ ٭٭٭٭٭