عید کے روز قربان گاہوں سے جتنا خون بہا اور کراچی میںجتنی بارش ہوئی بھارتی فوج نے اب تک اہل کشمیر کا اتنا لہو تو بہا دیا ہو گا۔ کشمیر ریاست نہیں بلکہ پاکستانیوں کی شہ رگ ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت اس تنازع کا باقی رہنا ثابت کرتا ہے کہ برطانوی سلطنت کی گڈ گورننس ایک آنے کی نہیں تھی۔ بہتر سال سے اس تنازع کا لہو اگلتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں بین الاقوامی نظام نہ تو مہذب ہو سکا اور نہ ہی عالمی امن کے لئے مستحکم اصول وضع کر سکا۔جن دنوں اسلام آباد / راولپنڈی میں تھا، ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے کشمیر کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کی ببلو گرافی مرتب کرنے کو کہا۔ ڈاکٹر صاحب ممتاز محقق اور ان دنوں مقتدرہ قومی زبان میں ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ میں نے لگ بھگ 1600 کتابوں کے نام، پبلشر کا نام، مصنف کا نام اور تاریخ اشاعت کی فہرست بنائی جو کشمیر کے موضوع پر لکھی گئی تھیں۔ راولپنڈی کی میونسپل لائبریری سے لے کر نیشنل لائبریری اسلام آباد تک کو چھانا۔ ظاہر ہے پڑھنے کا موقع تو نہ ملا مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی کتاب ہاتھ میں آئے اور آپ اس کی ورق گردانی بھی نہ کر سکیں۔ کشمیری راجائوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب راج ترنگنی کو پہلی کشمیری کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ راج ترنگنی ساڑھے پندرہ سو سال پہلے لکھی گئی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ پہاڑوں اور چشموں میں گھرے کشمیری دنیا سے الگ تھلگ نہیں تھے۔ لفظ اور خیال کے ساتھ ان کا تعلق انہیں دنیا کے باقی تعلیم یافتہ معاشروں اور قوموں کے ساتھ جوڑے ہوئے تھا۔ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ جموں و کشمیر لبریشن موومنٹ (یاسین ملک گروپ) کے صدر ڈاکٹر غلام حیدر نے پنڈی میں اپنا ہسپتال بنا رکھا تھا۔ اس ہسپتال کے ایک گوشے میں ان کا دفتر تھا۔ راجہ لطیف طاہر اس کے منتظم تھے۔ مجھے ببلو گرافی مرتب کرتے ہوئے کشمیر کے معاملے کو جاننے کی جستجو ہوئی۔ تاریخی حقائق کے بعد اس کی تازہ صورتحال سے آگاہ ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ حزب المجاہدین کے کچھ دوست رابطے میں تھے۔ پروفیسر نذیر شال سے ملاقات کی، سردار عتیق کا انٹرویو کیا۔ امان اللہ خان سے بات کی، انہوں نے اپنی کتاب’’جہد مسلسل‘‘ عنایت فرمائی۔ راجہ لطیف طاہرنے ایک روز مجھے امریکی تھنک ٹینک کی مرتب کی گئی ایک رپورٹ دکھائی۔ اس رپورٹ کو بین الاقوامی قانون کے ماہر پروفیسر شوار زنیگر نے تحریر کیا تھا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب اسلام آباد آتے جاتے رہے ہیں اور ان دنوں ان کے طاقتور حلقوں سے قریبی رابطے تھے۔ اس رپورٹ میں تنازع کشمیر کے ممکنہ کچھ حل تجویز کئے گئے تھے۔ ان میں سے ایک حل کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ایک حصہ پاکستان کے پاس رہے گا اور باقی دو کے ساتھ وہی کچھ کرنے کی بات کی گئی جو نریندر مودی حکومت نے لداخ اور مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کیا ہے۔ میں نے رپورٹ کی کاپی کی طلب کی۔ راجہ لطیف طاہر نے انکار کر دیا۔ کئی ماہ تک میرا اصرار جاری رہا۔ انہوں نے اپنی قیادت سے اجازت ملنے پر کاپی دینے کا وعدہ کیا جو چھ سات ماہ بعد پورا ہو گیا۔ فاروق فیصل خان ہمارے ایڈیٹر تھے۔ میں نے ان سے بات کی، فیصلہ ہوا کہ ہم اس رپورٹ کو اخبار کے رنگین ایڈیشن پر ترجمہ کرکے شائع کریں گے۔ ساتھ کچھ میری تحقیق الگ باکس کی شکل میں شائع ہوئی۔ جس روز رپورٹ شائع ہوئی اخبار کی فوٹو کاپیاں فروخت ہوتی رہیں۔ بعد ازاں کشمیر ڈائجسٹ نے مجھ سے اجازت لے کر یہ رپورٹ شائع کی۔ 2006 ء میں شیخ عبداللہ کے پوتے اور اس وقت کی واجپائی حکومت میں بھارت کے نائب وزیر خارجہ عمر فاروق عبداللہ اسلام آباد آئے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف آباد کشمیری رہنمائوں کو موقع دیا گیا کہ وہ اس مکالمے میں شریک ہوں۔ اطمینان کا باعث یہ بھی تھا کہ تنازع کشمیر دوطرفہ مذاکرات اور کشمیریوں کو اعتماد میں لے کر حل کیا جا رہا ہے۔ شاید پاکستان اور بھارت کی تاریخ میں یہ بہترین موقع تھا جب دونوں طرف تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں دیکھنے کو ملیں۔ کارگل جنگ سے جو بدمزگی پیدا ہوئی تھی اس کی خاص وجہ ہے، جانے وہ وجہ کیوں سامنے نہیں لائی گئی اور کیوں نہیں بتایا گیا کہ میاں نواز شریف جس ٹریک پر واجپائی سے بات کر رہے تھے اس سے ریاست کے کچھ مفادات متاثر ہوتے تھے۔ شاید وہ ٹریک طے ہو جاتا تو ہم آج سی پیک تعمیر نہ کر پاتے۔ پاکستان و بھارت کی حکومتوں کی غیرسنجیدگی نے تنازع کشمیر کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ عالمی طاقتیں میدان میں آ گئی ہیں۔ انہوںنے بوسیدہ الماریوں میں رکھے ان مسودات کا مطالعہ شروع کر دیا ہے جوخطے کی جغرافیائی تبدیلیوں کی صورت میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی تدابیر بتاتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک سچائی ہے کہ عالمی برادری کا ردعمل ہمیشہ اس وقت ثالثی کی صورت میں آتا ہے جب جغرافیئے تبدیل ہو رہے ہوں۔ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ امریکہ تنازع کشمیر کو حل نہیں ہونے دیتا، کیونکہ اسے اس علاقے میں ایک اڈہ چاہئے جہاں بیٹھ کر وہ اپنے مقابل ابھرنے والی طاقت چین پر نظر رکھ سکے اور دوسری طرف بھارت، پاکستان اور افغانستان سے وسط ایشیا تک کے علاقے کو اپنے ریڈار پر لے آئے۔ جس عمل کو تاریخ کہا جاتا ہے وہ ہمیشہ عالمی طاقتوں کی من مانیوں سے تعمیر نہیں ہوتی، تاریخ کئی بار ان سچائیوں سے اپنے مینار اٹھاتی ہے جو کمزور، پسماندہ اور نہتی اقوام کے غیر متوقع ردعمل کی شکل میں سامنے آتی ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا معاہدہ ہونے کی دیر ہے۔ اس معاہدے میں امریکہ کا خطے میں آئندہ کردار واضح ہونے کو ہے۔ پاکستان کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔ کشمیریوں کا ردعمل کرفیو سے روکا جا رہا ہے، یہ مضحکہ خیز ہے۔ جو قوم موت کے خوف سے آزاد ہو جائے اسے اس طرح پیشقدمی سے روکا نہیں جا سکتا۔ اچھا ہوا ہم جان گئے کہ امہ کا تصور بھی بیچا جا رہا ہے۔ افغان ہم سے پہلے جان گئے اور سرخرو ہوئے۔