وزیر اعظم نے دورہ تہران میں دو ہی باتیں کیں اور انوکھا ماجرا دیکھئے، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے دونوں ہی کا بلیک آئوٹ کیااور جو باتیں انہوں نے ادھر ادھر کی کیں، وہی جو گفتگو کا مواد ختم ہونے پر ملاقاتی ایک دوسرے سے ’’اور سنا ئیے‘‘ یعنی ’’ہور سنائو‘‘ کے انداز میں کہا کرتے ہیں، وہ شہ سرخیوں کی صورت میں چھپیں۔ پھر اتفاق دیکھیے کہ جن دو اہم باتوں کا میڈیا نے بلیک آئوٹ کیا، وہی ایوان میں ’’وائٹ آئوٹ‘‘ ہو کے جگ مگ جگ مگ کرتی رہیں۔ پہلی بات انہوں نے یہ کی کہ ایران میں دہشت گردی کرنے والے پاکستان سے آپریٹ کرتے ہیں۔ کبھی ایسی بات کرنا حساس معاملہ ہوا کرتا تھا اور موجب غداری لیکن اب فضا بدل چکی ہے۔ ریاست کی پالیسی بھی اور جو کبھی ناخوب تھا۔ بتدریج وہی خوب ہو گیا۔ دوسری بات کا تعلق کسی حساس معاملے سے نہیں تھا لیکن وہ پہلی بات سے بھی زیادہ موضوع سخن بن گئی۔ فرمایا، جاپان اور جرمنی نے جنگ عظیم میں ایک دوسرے کے دسیوں لاکھ(ملینز) لوگ مارے، پھر صلح کر کے مشترکہ سرحد پر مشترکہ کارخانے لگا لیے۔ دیکھیے، عشق کی ایک ہی جست نے کیسے ساڑھے چھ ہزار میل کے فاصلے کا قصہ تمام کردیا۔ پریس نے ان دونوں باتوں کا ایک لفظ بھی چھپنے نہ دیا لیکن غیر ملکی میڈیا نے سماں باندھ دیا۔ خصوصاً گلف نیوز نے تو’’توا‘‘ لگانے کے انداز میں شہ سرخی جما دی۔ اسمبلی میں بھی خوب رونق اسی خبر کے دم پر لگی۔ پی ٹی آئی نے دونوں معاملات پر مدافعانہ اور معذرت خواہانہ انداز میں نظر آئی۔ ایک مدافعت کار نے کہا، خان صاحب کی زبان پھسل گئی تھی۔ ٭٭٭٭٭ زبان پھسلنے کے معاملے میں پوری پی ٹی آئی ہی اپنی مثال آپ ہے۔ خان صاحب کے جملہ اصحاب یمین ویسار، کیا صغار کیا کبار سبھی اس معاملے میں ایسے رواں ہیںگو یا لہسوڑے کے باغ سے اٹھ کر آئے ہوں اور کوئی شبہ نہیں کہ اس باب میں بھی سیادت کا اعزاز خود خان صاحب کو ہے۔ اسی لیے ان کا ہر خطاب ’’لائیو‘‘ نشر ہوتا ہے لیکن پھر خبر نامے میں سے ’’پھسلواں‘‘ فقرے ایڈٹ ہو جاتے ہیں اور اگلے روز اخبارات سے بھی غائب ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں، رات کو خصوصی ریکویسٹ آتی ہے کہ فلاں اور فلاں فرمودات کاٹ دیئے جائیں۔ جرمنی اور جاپان کی بات خان صاحب نے کئی بار کی، اس لیے یہ پھسلن نہیں ہو سکتی۔ پھسلن کا احساس فوراً ہی ہو جاتا ہے۔ اتفاق سے اس کی مثال بھی اسی روز مل گئی۔ مسلم لیگی رہنما عظمیٰ بخاری کو گو عمران گو کہنا چاہتی تھیں، لب پر گو نواز آ گیا۔ یہ تھی پھسلن، فوراً ہی انہیں احساس ہوا، گو نواز نہیں کہا، صرف گو نوا، کہہ کر رک گئیں۔ یعنی ’’گو‘‘ کی ادائیگی نہیں ہونے دی۔ اتفاق یہ بھی دیکھیے کہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں، بالخصوص خان صاحب کی ہر پھسلن کا بلیک آئوٹ کرنے والے اخبارات نے عظمیٰ بخاری کی یہ ادھوری پھسلن نمایاں چھاپی۔ خان صاحب نے تو بار بار جرمنی جاپان کہا۔ ایک نہیں، سات آٹھ فقرے کہے۔ سننے والوں میں کئی دوسرے ملکوں کے اصحاب دانش بھی تھے جو اس موقع پر اور تو کچھ نہ کہہ سکے، ایک دوسرے کی بغلیں جھانکتے رہ گئے۔ ٭٭٭٭٭ ایک مدافعت کار نے صفائی دی کہ خان صاحب جرمنی اور فرانس کہنا چاہتے تھے، فرانس کی جگہ جاپان کہہ گئے۔ جی خوب۔ ایسا ہے تو پھر بتا دیجیے، فرانس نے جرمنی کے دسیوں لاکھ کب مارے؟ جرمنی نے تو مارے، بمباری کی، قبضہ کے دوران لاکھوں پکڑے بھی اور مارے بھی لیکن فرانس تو جرمنی کے لاکھوں کیا،ہزاروں بھی نہیں مار سکا۔ دراصل جرمنی اور فرانس میں ایسی کوئی جنگ ہوئی ہی نہیں جسے جنگ کا نام دیا جا سکے۔ یہاں تو وہی معاملہ ہوا کہ وہ آیا، اس نے دیکھا اور ختم کر لیا۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد، 1940ء میں جرمنی کی ٹڈی دل افواج نے فرانس پر یلغار کی اور آن کی آن میں ملک کے دو تہائی حصے پر قبضہ کر لیا۔ فرانس کی فوج نے مقابلہ نہیں کیا۔ بہت سی بھاگ گئی، بہت سی پکڑ لی گئی۔ اس کے بعد جرمنی نے یہاں اپنی کٹھ پتلی انتظامیہ قائم کی جسے وشی Vichyحکومت کہا جاتا ہے وشی پیرس کے جنوب مشرق میں ایک شہر ہے جس میں اس انتظامیہ کا دارالحکومت تھا۔ کٹھ پتلی سربراہ کا نام جنرل فلپے پے تاں تھا۔ بہت تھوڑا رقبہ فرانس کا آزادکیا تھا جو کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ہاں اتحادی ہونے کے ناطے وہ اہم تھا اور جب امریکہ نے فرانس کو آزادی دلائی تو وہ پھر سے سپر پاور بن گیا۔ جرمنوں کے لاکھوں جتنے مارے وہ روس نے(مشرق سے) اور امریکہ نے(مغرب سے) مارے۔ فرانس نے تو بس مکھیاں ماریں۔ پھر یہ بھی بتا دیجیے کہ جرمنی اور فرانس کی سرحد پر مشترکہ کارخانے کہاں ہیں؟ کسی ایک کا نام بتا دیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کی ’’پھسلاہٹوں‘‘ پر کتابچہ لکھا جائے تو خاصا تفریحی اور معلوماتی ہو گا۔ فہرست بھی ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے افریقہ کو براعظم کے بجائے ملک قرار دیا۔ ظاہر ہے، زبان پھسل گئی تھی۔ نریندر مودی کی انتخابی فتح کے لیے صمیم قلب سے کی گئی دعا بھی زبان کی پھسلن ہی تھی۔ افغانستان میں کیسی عبوری حکومت ہونی چاہیے، یہ فارمولا بھی پھسلاہٹ کا نتیجہ تھا۔ افسوس کہ افغانوں نے اسے سنجیدہ لے لیا اور ناراض ہو گئے۔ سال کے بارہ موسم ہوتے ہیں، یہ بھی پھسلن تھی۔ چین میں ٹرینیں روشنی کی رفتار سے چلتی ہیں، یہ اطلاع بھی زبان پھسلنے کی وجہ سے برآمد ہوئی۔ خدا میری بھی تیاری کرا رہا ہے۔ یہ پھسلن دو سے زیادہ مواقع پر ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ کل ہی مشیر اطلاعات فردوس عاشق نے زبان کی پھسلن ہی کے ذریعے آبادی کے اعدادوشمار درست کرائے۔فرمایا: پاکستان کی آبادی 12کروڑ ہے۔ یہ مت سمجھئے کہ انہوں نے انصافیاتی مہنگائی کے نتیجے میں آبادی کی متوقع کمی کو پیشگی منہا کر لیا۔ بہرحال، پی ٹی آئی کے حامیوں کو معذرت خواہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ ڈٹ کر کہیں کہ دنیا کے بڑے لیڈر تاریخ بدلتے ہیں، ہمارا کپتان جغرافیہ بھی بدل ڈالتا ہے اور ماضی میں جا کر تاریخ بھی نئے سرے سے تحریر کر سکتا ہے۔