کل کے شمارے میں ہم نے جینوسائڈ واچ کی تحقیقی اورآج کاہندوستان پربات کرتے ہوئے اس امرکاجائزہ لینے کی کوشش کی تھی کہ کیسے ظالم حکمران اپنے ہی ملک کی اقلیتوں کے خلاف پہلے سازشیں رچاکران کاقتل عام کرتے ہیں اورکسی طرح زندہ بچ جانے والوں کو بالآخرملک بدرکرتے ہیں۔آج کے ہندوستان کی صورت حال جینوسائڈ واچ کی تحقیق کے پس منظرمیں ایک بہت بڑے خوفناک انسانی المیے کی طرف بڑھ رہی ہے۔جس دس ادوارکاجینوسائڈ واچ کی تحقیق میں تذکرہ کیاجاچکاہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں جس طرح فاشسٹ طاقتوں کے لیے یہ صورت حال’’ ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کا مصداق ہے،اسی طرح آج ہندوستانی مسلمانوںکے لیے بھی’’ کرو یا مرو ‘‘جیسی صورت حال ہے۔ اگرآج ہندوستان کامسلمان خاموش بیٹھ گیا اور این پی آر کا عمل شروع ہوگیا تو حالات آئندہ چند سالوں میں کیا ہوں گے، اس کا اندازہ ان سطور کے پڑھنے کے بعد بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ہندوستان میں مسلمان اپنے لباس اور بہت سی معاشرتی خصوصیات کی بنا پر پہلے ہی ممتاز ہیں۔ تقریبا ہر شہر میں مسلم آبادی الگ ہے۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہٹلرمودی نے حال ہی میں پورے ہندوستان میں احتجاج کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچاننے کی بات کہی ۔جس کاصاف مطلب یہ تھاکہ ہندوستانی مسلمانوں کونہیں چھوڑیں گے ،اسی ایجنڈے کوعملدرآمدکے لئے ہندوستان کے کئی صوبوں میں ڈٹینشن کیمپس تعمیرکئے جار ہے ہیں جبکہ آسام میں بہت سے لوگوں کو پہلے ہی ڈٹینشن کیمپ میں ڈالا جاچکا ہے۔ 1933 ء میں، دس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ہٹلر نے جرمنی کا اقتدار سنبھالا۔ یہودی اس ملک میں صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے، وہ اپنے آپ کو وطنی اعتبار سے جرمن اور مذہبی اعتبار سے یہودی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے ملک کے لیے دوسرے جرمنوں کے شانہ بشانہ قربانیاں بھی دیں تھی۔ لیکن ہٹلر نے نسل پرستی کا سہارا لیکر اقتدار پر قبضہ کیا اور1935 ء میں نوریمبرگ لا ملک میں نافذ کردیا، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی جرمن شہریت چھین لی گئی، غیر یہودیوں کے ساتھ ان کے شادی بیاہ کو غیر قانونی قرار دیا گیا، فوج اور پولیس کی ملازمتوں سے ان کو نکالا گیا، اسکولوں اور کالجوں سے بھی ان کو محروم کر دیا گیا۔ اس عرصے میں یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے وزیر جوزف جوبیلس نے ان کو جرمنوں کا دشمن اور ملک کا غدار قرار دیا گیا۔ اخبارات میں یہود مخالف مضامین شائع ہونے لگے، جگہ جگہ ان کے خلاف پوسٹرز لگنے لگے، جرمن فلم انڈسٹری بھی ان کے خلاف میدان میں آگئی، فلموں میں ان کو ملک دشمن دکھایا جانے لگا اور آخرکار اسکولوں کا نصاب بھی بدل دیا گیا۔ 1939 ء میں ہٹلر نے اپنے زیر نگیں علاقوں میں کانسنٹریشن کیمپس کی تعمیر کا حکم دیا اور 1942ء سے سرکاری فوجیوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کو (Nazi concentration camps) میں لایا جاتا اور (Gas chambers)میں بند کرکے ہلاک کردیا جاتا۔ ان کی ہلاکت پر نفرت کے پروپیگنڈے سے متاثر جرمنوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ یہودیوں سے جرمنی کی شہریت چھینے جانے کے سات سال کے بعد ان کی نسل کشی کی گئی۔ برما نے1942 ء میں سٹیزن شپ قانون ملک میں متعارف کرایا اور روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا۔ اس قانون سے پہلے بھی روہنگیا کوئی اچھی حالت میں نہیں تھے۔ دو سے زائد بچے پیدا کرنا قانوناََ جرم تھا، ان کی بہت سی زمینیں چھین لی گئیں تھی اور ان کی ایک بڑی تعداد کو صفائی کرنیوالی تھرڈ کلاس کی مخلوق قرار دے دیا گیا۔ لیکن 1982کے شہریت قانون کے بعد ان پر ظلم میں اضافہ ہوا اور2017ء میں ان کی بڑے پیمانے پر نسل کشی شروع ہوگئی، خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی، گھروں کو مسمار کردیا گیا اور روہنگیا کی پوری نسل کو ملک دشمن قرار دے دیا گیا۔ اس ظلم میں برمی فوج کے ساتھ مقامی بودھ آبادی نے بھی پورا حصہ لیا۔ مقامی لوگوں کو یہ لالچ تھا کہ روہنگیا کے خاتمہ کے بعد ان کی زمینیں مقامی لوگوں کے ہی قبضے میں آنی ہیں۔ روہنگیا کے خلاف نسل کشی ظلم کی بنیاد پڑنے کے 35 سال کے بعد شروع ہوئی۔ اندازہ کیجئے کہ آج ہندوستان کے مسلمانوں پریہ دس ادوار کس طرح داخل ہوچکے ہیں۔ مودی کی مدرتنظیم آرایس ایس اعلان کرچکی ہے کہ ہندو راشٹر کا قیام اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ہندوستان میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ آرایس ایس کے غنڈے نہایت منظم طریقے سے حاصل کررہے ہیں ۔2017ء میں امریکی سی آئی اے نے بجرنگ دل کودہشت گرد گروپ قرار دیا ہے اور حالیہ مظاہروں کے بعد پولیس ایکشن میں بجرنگ دل نیز آر ایس ایس کے کارندوں کی بربریت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی اوریہ بتانے اور ثابت کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے کہ یہ فاشسٹ کھل کریہ بتارہے ہیں کہ ہندوستان میںمسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور 2050 ء تک مسلمان اکثریت میں آجائیں گے۔ سی اے اے نامی قانون کے ذریعے ہندوستان کی ہندواکثریت کو یہ میسج دیدیا گیا کہ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں انھوں نے اقلیتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ہیں ۔ 2017ء سے سینکڑوں ہندوستانی مسلمانوں کوگائے ذبیحہ پرقتل کردیاگیااوریہیں سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ہورہی نسل کشی کے ناپاک منصوبوں کوکس طرح ترتیب دیاگیاہے۔آج ہندوستانی میڈیا میں کھلم کھلا یہ کہا جارہا ہے مسلمانو! اگر گائے کا احترام نہیں کرسکتے ہوتو پاکستان چلے جائو۔ہندوستان میں یہ تقسیم یوں تو بہت پرانی ہے، لیکن برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک اس تقسیم میں شدت ہی پیدا ہوئی ہے۔ہندواکثریت کو مسلمان اقلیت کے خلاف غیر انسانی سلوک پر بھڑکانے کے لیے میڈیا مکمل طور پر سرگرم عمل ہے اور کھلم کھلا مسلمانوں کو ذلیل کیے جانے کا عمل دن رات جاری ہے۔ہندوستان کے اندرمسلمانوں کے حق میںاٹھنے والی بہت سی آوازوں کو دبایا جارہا ہے جنہیںقتل نہیں کیا جاسکتاتو ان پر مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون لاکر شریعت میں مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا، بابری مسجد کومحض ہندو اکثریتی معاشرے کی تسلی کی خاطر عدالتی نظام کے تحت مسلمانوں سے چھینا گیا، یکساں سول کوڈ کولاگوکرنے کی پیہم کوششیں ہورہی ہیں جبکہ مسلمانان ہندوستان کو بے وطن کرنے کے لئے این آر سی اور این پی آر کے ذریعے شہریت چھینے جانے کا آغاز ہوچکا ہے اور آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی شہریت پہلے ہی ختم کی جاچکی ہے۔