اس بارکتابوں کا عالمی دن 23 اپریل خاموشی سے گزر گیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد ’’کتاب دوستی‘‘ ہے۔ سرائیکی کہاوت ’’لکھیا لوہا، الایا گوہا‘‘ یعنی زبانی بات جو تحریر میں نہ آسکے راکھ ہے جبکہ تحریر لوہے کی مانند ہے دوسری ملکوں کی طرح پاکستان کتاب کا عالمی دن منایا تو جاتا ہے مگر حکومت کی توجہ کتاب کی طرف بہت کم ہے۔ ہر سال کتابوں کا عالمی دن خاموشی سے گزر جاتاہے۔ سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی جاتی 23 اپریل کو کتاب کے عالمی دن کو شیکسپیئر سے کیوں منسوب کیا گیا؟ اس کی وجہ شیکسپیئر کی کتابیں ہیں جو کہ 500 سال گزرنے کے باوجود انگریزی ادب کی شاہکار کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ 23 اپریل شیکسپیئر کا یوم پیدائش بھی ہے اور یوم وفات بھی ، وہ 23 اپریل 1524 ء برطانیہ میں پیدا ہوا اور 23 اپریل 1616ء کو انتقال کر گیا۔ انگریز اس لحاظ سے ہم سے صدیوں آگے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہیرو شیکسپیئر کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کو یاد رکھا ہوا ہے، دوسرا یہ کہ انگریز نے مشرق تا مغرب پورا دنیا کا اقتدار کتاب دوستی کی بنیاد پر حاصل کیا، ہم کتاب سے بہت دور ہیں ہم ہر بات بھول جاتے ہیں، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ 23 اپریل 1930ء کو قصہ خوانی بازار پشاور میں بدیسی انگریز حاکم نے ہزاروں کے جلوس پر فائرنگ کی 300 لوگ شہید ہوئے۔ ’’یادگار شہیداں‘‘ اس واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ 23 اپریل 1961ء کو پاکستان کے نئے دارالحکومت اسلام آباد کی بنیاد رکھی گئی، مولانابھاشانی اور دیگر نے احتجاج کیا کہ بنگالیوں کو ہزاروں میل مسافت کراچی کے بعد ایک ہزار کلو میٹر کراچی سے اسلام آباد تک سڑک کے خشک راستے کا عذاب بھی سہنا پڑے گا۔ بنگالیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی نصف سے زیادہ ہے اور مسلم لیگ کے بننے سے لیکر قیام پاکستان تک بنگالیوں کی قربانیاں زیادہ ہیں مگر دارالحکومت سمیت تمام قومی امور میں بنگالیوں سے مشورہ تک نہیں کیا جاتا۔ ایوب خان نے کوئی توجہ نہ دی اسے معلوم ہی نہ تھا فیڈریشن میں رہنے والے تمام خطوں اور لوگوں کے حقوق برابر ہوتے ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے لاہور شہر کی بہت خدمات ہیں۔ لاہور وہ خوش قسمت شہر ہے جہاں 1848ء میں منشی ہر سنگھ رائے نے چھاپہ خانہ قائم کیا۔ اس چھاپہ خانہ سے ادبی کتابوں کے ساتھ ساتھ نصابی کتابوں کا بھی سلسلہ شروع ہوا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ درسی کتابوں پر ہندو ناشران کی اجارہ داری تھی، کتابوں کی دکانیں موہن لعل روڈ پر تھی۔ قیام پاکستان کے بعد موہن لعل روڈ کو اردو بازار کا نام دیا گیا۔ 1894ء فیروز سنز قائم ہوا جس کے بعد مسلم پرنٹرز اور پبلشرز اس میدان میں آنے لگے۔ اسی سال سید ممتاز علی دہلی سے لاہور منتقل ہوئے اور انہوں نے بچوں کا رسالہ پھول اور خواتین کا رسالہ تہذیب نسواں لاہور سے جاری کیا اور اس ادارے سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ بعدازاں شیخ غلام علی اینڈ سنز، شیخ شوکت علی اینڈ سنز کے نام سے لاہور میں اشاعتی ادارے قائم ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کاغذ کی صنعت مشرقی پاکستان میں تھی اور طباعت و اشاعت کے ادارے لاہور، کراچی میں تھے۔ مشرقی پاکستان کے بنگالی اسے بھی اپنی محرومی کے طور پر بیان کرتے، پاکستان میں مجلس ترقی ادب ادارہ ثقافت اسلامیہ، قائد اعظم اکیڈمی، اقبال اکیڈمی، بزم اقبال، اکادمی ادبیات، مقتدرہ قومی زبان، اردو سائنس بورڈ، آل پاکستان ایجوکیشن کانفرنس، انجمن ترقی اردو اور بہت سی اعلیٰ شان لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔ یہ ادارے کچھ تو سقوط ڈھاکہ کے بعد قائم ہوئے ، البتہ بیشتر ادارے پہلے سے موجود تھے اور ادارے قائم کرنے والوں نے مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں کو اتنی تعداد میں سہولتیں نہ دیں جتنی کہ مغربی پاکستان کو حاصل ہوئیں۔ لاہور میں اشاعتی اداروں کو تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ملک محمد دین اینڈ سنز1905ئ، ایکو آرٹ پریس1912ئ، شیخ محمد اشرف اینڈ سنز 1922ئ، شیخ غلام حسین اینڈ سنز 1927، تاج کمپنی 1929ء اور ملک سراج الدین اینڈ سنز 1935ء میں قائم ہوئے۔ اس کے بعد لاہور میں اشاعتی اداروں کا لا متناہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ڈیجیٹل دور کا آدمی کتاب سے بہت دور چلا گیا ہے۔ کتاب سے دوستی کی بجائے دوری پیدا ہوئی ہے۔ ادارہ جھوک کی طرف سے کرونا آگاہی مہم کے دوران ہم نے کتابیں مفت دینے کا سلسلہ اس سلوگن کے ساتھ شروع کیا کہ ’’گھر بیٹھیں اور کتابیں پڑھیں‘‘ اس کا مثبت جواب آیا، روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد کتابیں لے رہے ہیں، کتاب پڑھنے کے بعد وہ واپسی جواب بھی دیتے ہیں کہ کورونا لاک ڈائون کے موقع پر کتاب اچھی ساتھی ثابت ہوئی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں مفت فراہم کرنے کے سلسلے کو عالمی سطح پر بھی پسند کیا گیا، وائس آف امریکہ، بی بی سی اور دیگر نشریاتی اداروں کی طرف سے رپورٹیں شائع ہوئیں، کتابیں فراہم کرنے کا مقصد انسان کے کتاب سے ٹوٹے ہوئے رشتے کو پھر سے جوڑنا ہے کہ قومیں کتاب سے بڑی ہوتی ہیں آج کی نوجوان نسل اور آئندہ آنیوالی نسل کو ڈیجیٹل فحاشی سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کی کتاب سے دوستی کرائی جائے۔ پاکستان میں کتاب پڑھنے کا رحجان کم ہے، وسیب کی صورتحال اس لیے زبوں تر ہے کہ وسیب میں شرح خواندگی کم ہونے کے ساتھ معاشی مسائل بھی موجود ہیں، مزید یہ کہ طباعت و اشاعت کا مرکز لاہور بنا ہو اہے، دو سو سال پہلے جب ملتان صوبہ لاہور سے الگ صوبہ تھا تو ملتان کے کتب خانے اور طباعت و اشاعت کے ادارے نمایاں کام کر رہے تھے، ملتان اور پورے وسیب کو سب سے بڑا نقصان اس وقت ہوا جب 2 جون 1818ء کو رنجیت سنگھ نے سلطنت ملتان پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے کتب خانوں اور لائبریریوں کو آگ لگوائی یہاں تک کہ مسجدوں میں رکھے گئے قرآن مجید بھی (معاذ اللہ) جلوا دیے گئے، اور مساجد کو اسلحہ خانوں اور اسطبلوں میں تبدیل کیا گیا، سکھا شاہی کے اثرات آج بھی وسیب میں موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اردو کے ساتھ ساتھ پاکستانی زبانوں سرائیکی، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، پوٹوہاری، براہوی، کشمیری، ہندکو و دیگر کی ترقی کیلئے اقدامات کرے۔ زبانوں کی ترقی کا نام تعصب نہیں ہے۔