جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ یہ اُصول، جو زمانوں سے چلا آ رہا ہے، اہلِ پاکستان کی اکثریت کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آخر کون سا کام راتوں رات ہو جاتا ہے؟ معجزوں کے زمانے گزر گئے جب پلک جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے موجود تھا۔ وقت لگتا ہے۔ وقت لگنے سے مراد وہ وقت نہیں جو نیکوکار پوچھتے ہیں ’’کیا وقت لگایا ہے‘‘؟ بلکہ کام ہونے میں، نتیجہ حاصل ہونے میں، ظفریابی میں وقت لگتا ہے۔ وہ عظیم شاعر سنائی، جس کے مزار پر اقبال نے اپنی وہ لافانی غزل کہی جس کے یہ اشعار ضرب المثل ہو چکے ہیں۔ وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہ سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا وہی سنائی جس کی یاد میں رومیؔ جیسے عبقری نے کہا تھا ع ما از پئی سنائی و عطّار آمدیم ہاں! اسی سنائی نے یہ سبق بھی دیا تھا کہ تمام عظیم کام وقت لیتے ہیں۔ پتھر سالہاسال دھوپ میں جلتا ہے تب بدخشاں کا لعل بنتا ہے یا یمن کا عقیق! کپاس کے بیج کو معشوق کی شال بننے میں یا شہید کا کفن بننے میں مہینے لگ جاتے ہیں۔ جبھی تو اردو کے شاعر نے کہا ؎ دعا کرو بن سکوں گُلو بند عاشقوں کا میں تار افسوس سے غموں پر کڑھا ہوا ہوں بھیڑ کی پشت سے ایک مٹھی اُون لے کر کپڑا بنانے میں کتنے ہی دن لگ جاتے ہیں تب جا کر فقیر کی گدڑی بنتی ہے یا گدھے کی گردن کے لیے رسّی! پوری عمر درکار ہے ایک بچے کو عالم یا شاعر بننے میں، اویس قرنی صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے! ملک ایک دن میں نہیں تبدیل ہو گا۔ اہلِ پاکستان اس نکتے پر غور کریں اور اسے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کریں۔ راتوں رات کچھ نہیں حاصل ہو گا۔ مثلاً ملک میں قانون کی حکومت نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی سرکاری وفد افغانستان گیا تھا۔ پرانی بات ہے۔ افغانستان کے ایک وزیر کا تعارف کرایا گیا کہ یہ ریلوے کے انچارج ہیں۔ پاکستانی وفد نے تعجب کا اظہار کیا کہ افغانستان میں تو ریل کا وجود نہیں۔ اس پر افغانوں نے جواب دے کر پاکستانی مہمانوں کو ٹھنڈا ٹھار کر دیا کہ آخر پاکستان میں بھی تو وزیر قانون ہوتا ہے۔ ہم پاکستانیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو قانون کے نیچے لے کر آئیں گے۔ بہت ہو چکی لاقانونیت، پورے کرۂ ارض پر ہم بدنام ہو چکے کہ یہ لوگ قانون کی پاسداری نہیں کرتے بلکہ اس کے پرخچے اڑاتے ہیں۔ اب یہاں معاملے کی جڑ اور مسئلے کا جوہر یہ ہے کہ یہ کام بتدریج ہو گا۔ اسے ہم نچلی سطح سے شروع کریں گے۔ بہت مشکل بلکہ ناممکنات میں سے ہے کہ قانون کا نفاذ اوپر سے شروع کیا جائے۔ حالیؔ نے یہی سمجھایا تھا ؎ نہال اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں یہ تو بہت مشکل ہے کہ زرداری صاحب کو قانون کی حکمرانی میں لایا جائے۔ ان کے پاس طاقت ہے۔ دولت ہے۔ ووٹ کی قوت ہے۔ جبھی تو وہ ایک لات مار کر حکومت گرا سکتے ہیں۔ یہی مشکل نواز شریف صاحب کے ضمن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو درپیش ہے۔ قانون کا تقاضا ہے کہ ان کی ناروا دولت ان کے ناجائز محلات، کارخانے، جائیدادیں ضبط کر لی جائیں۔ مگر نواز شریف جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بالائی طبقہ ہے! یہ لوگ زور رکھتے ہیں اور زربھی! ان پر قانون کا نفاذ نہیں ہو سکتا، اس میں وقت لگے گا۔ ان حضرات کو گرفتار کرنا بھی کارے دارد ہے۔ نواز شریف کو گرفتار کیا گیا مگر کبھی ضمانت پر انہیں رہا کرنا پڑتا ہے کبھی علاج کے لیے، اگرچہ اس کی قانون میں کوئی نظیر بھی نہیں ہے۔ تا ہم نفاذِ قانون کا آغاز کرنے کے لیے قدرت نے مدد کی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ ایک ایسا شکار لگا جو امیر تھانہ طاقت ور! بالائی طبقے سے تعلق رکھتا تھا نہ اس کے پاس ووٹروں کی فوج ظفر موج تھی۔ یہ میٹھے خربوزے پیدا کرنے والے قصبے عارف والا کا غریب نوجوان فیاض تھا جس نے زمین بیچ کر، قرض لے کر، جان مار کر،اپنے شوق سے جہاز بنایا۔ پھر اسے اڑایا۔ یہ قانون کی خلاف ورزی تھی، چونکہ قانون کے نفاذ کا کام سب سے نچلی سطح سے شروع کرنا تھا۔ اس لیے حکومت فوراً حرکت میں آئی۔ نوجوان گرفتار کر لیا گیا اور جہان کا ماڈل ضبط! ایک عشرے سے زیادہ عرصہ بے نظیر ایئر پورٹ اسلام آباد کی تعمیر میں لگ گیا۔ آج بھی تعمیر میں نقائص موجود ہیں۔ دو دن پہلے کی بات ہے کہ سامان لانے والی بیلٹوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ عرصہ پہلے بھوجا کا جہاز دارالحکومت کے شہریوں پر گرا۔ سرکاری ادارے ملوث تھے کہ انہوں نے اسے پرواز کے لیے کلیئر کر دیا تھا جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر ان سب معاملات میں مجرموں کو پکڑنا مشکل ہے۔ ہر مجرم کی پشت پر ایک بڑا مجرم کھڑا ہے۔ یہ فیاض ہی تھا جس کی پشت پر کوئی نہ تھا۔ اس لیے اسے پکڑ لیا گیا۔ تازہ خبر ہے کہ سیکرٹری ہوا بازی ڈویژن نے اس کا جہاز واپس دلوایا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے علاقۂ غیر کے حاجی اصل مالک کو اغوا شدہ کار واپس کرتے ہوئے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ اس کے باوجود کار کا اصل مالک ان کا شکر گزار ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہوا بازی ڈویژن کے سیکرٹری یا وزیر شرمساری کا اظہار کرتے اور حکومت کی طرف سے معذرت کرتے، ڈرامہ یہ کیا گیا کہ یہ حکومت کی کرم فرمائی لگے۔ یہ تجربہ کامیاب رہا، اب قانون کو نچلی سطح سے نافذ کرنے کا کام آگے بڑھایا جائے گا۔ بڑے بڑے بجلی چوروں کو پکڑنا مشکل ہے۔ ہاں! وہ غریب طالب علم جو راتوں کو گلی کے موڑ پر بیٹھے، سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ انہیں گرفتار کر کے قانون کے دائرے میں لایا جائے گا۔ کیوں کہ یہ بھی بجلی چوری کی ایک قسم ہے! جو طاقت ور مافیا گروپ گاڑیاں سمگل کر رہے ہیں اور محصول ادا کیے بغیر ان پر سوار ہو کر دندناتے پھرتے ہیں، انہیں پکڑنا ممکن نہیں۔ مگر وہ مستری جو دھرم پورے بادامی باغ اور سلطان کے کھوہ میں ورکشاپوں پر بیٹھے ہاتھوں سے مشقت کر رہے ہیں اور کمال ہنرمندی سے نئے انجن بنا رہے ہیں، انہیں ضرور گرفتار کیا جائے گا تا کہ نفاذِ قانون کا کام کہیں سے تو آغاز ہو۔ ملک میں تاجروں کو کھلی چھٹی ہے۔ سہ پہر کو دکانیں کھولتے ہیں۔ آدھی رات کو بند کرتے ہیں۔ گاہک کو رسید نہیں دیتے۔ مانگے تو برامانتے ہیں۔ ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ صنعت کار ملاوٹ والا مال سپلائی کر رہے ہیں مگر انہیں ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ریڑھی والوں کو پکڑا جائے۔ انہیں جگہ جگہ سے بے دخل کیا جائے۔ بلکہ رسید دینے کی پریکٹس بھی انہی سے شروع کرائی جائے۔ آئندہ وہ ایک درجن کیلے یا ایک کلو سیب یا آدھا کلو شلغم فروخت کریں تو گاہک کو باقاعدہ چھپی ہوئی رسید دیں اور شام ڈھلنے کے بعد ریڑھی پر جو وہ بلب جلاتے ہیں یا گیس کا لیمپ، یہ توانائی کا ضیاع ہے۔ چنانچہ ریڑھی والوں کو پابند کیا جائے گا کہ ریڑھیاں صبح نو بجے لگائیں اور غروب آفتاب کے وقت کاروبار بند کر دیں تا کہ زیادہ سے زیادہ کام سورج کی روشنی میں کریں اور یوں توانائی بچائیں۔ عارف والا کا فیاض کسی مغربی ملک میں ہوتا تو آج ہیرو ہوتا۔ بڑی بڑی کمپنیاں اسے اپنے ہاں ملازمت کی پیش کشیں کرتیں۔ حکومت کا وزیر اُس کے دروازے پر جاتا۔ اسے ملک کے حکمران سے ملایا جاتا۔ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا! فیاض کسی سیاسی پارٹی کا گلوبٹ بنتا تو آج اس کی پانچوں گھی میں ہوتیں۔ سمگلنگ کرتا تو سرکڑاھی میں ہوتا۔ منشیات فروخت کرتا تو رشوت دے کر محفوظ رہتا۔ قاتل ہوتا تو کسی عوامی نمائندے کے ڈیرے پر ناشتے میں مکھن اور لنچ میں ککڑ کھاتا مگر اس نے اپنے حلال کے پیسے سے ایک کارنامہ انجام دیا۔ اس لیے قانون نے اس کی تذلیل کی۔ حوصلہ شکنی کی انتہا کر دی ۔۔۔۔۔۔تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کارنامہ مبارک!