نا جانے آج کہاں سے اودے پور راجستھان انڈیا کا ایک منظر نہاں خانے سے اٹھ کر آنکھوں میں آ کھڑا ہوا۔ نظریں جما کر دیکھا تو یہ ایک منظر ہی نہیں لاتعداد مناظر پر مبنی ایک فلم تھی۔یہ منظر اس طرح تازہ ہونے لگے جیسے بہت دیر سے دھند اور بادلوں کی دیوار تنی ہو اور یکایک ان میں شگاف اور رخنے پڑنے لگیں۔شگافوں کی ان کھڑکیوں اور جھروکوں کے دوسری طرف چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی ہو، سرسبز کھیت اس تصویر کو ہرا رنگ دے رہے ہوں اور کھپریل کی سرخ چھتوں والے گھروں میں چلتے پھرتے مکین دکھائی دے رہے ہوں۔ میں اودے پور میں کمرے کی عقبی بالکنی میں کھڑا ہوں۔یہ بالکنی ہوٹل کے دائیں طرف عقب کی طرف کھلتی ہے۔شام کا وقت ہے اور سورج اودے پور کے مشہور اراوالی پہاڑوں کے پیچھے غروب ہونے سے کچھ پہلے کی ترچھی نگاہیں زمین پر ڈال رہا ہے۔شفق کے پھول آسمان پر بھی ہیں اور زمین پر بھی کھل رہے ہیں۔ہوٹل کی چار دیواری کے باہر دائیں بائیں اور پیچھے سنگ مرمر تراشنے اور انہیں چمکدار بنا کر مطلوبہ سائز میں کاٹنے کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں۔سنگ مر مر کی بڑی بڑی سلیں ہر طرف نظر آرہی ہیں جن سے سورج کی کرنیں منعکس ہوتی ہیں اور نظر ان پر ٹھہرتی نہیں۔یہ علاقہ سینکڑوں سال سے سنگ مرمر کے لیے مشہور ہے اورخاص طور پر مغلوں کے فن تعمیر کی تسکین کے لیے براق پتھر فراہم کرتا آیا ہے۔تاج محل بھی انہی پہاڑوں کے سفید پتھروں سے بنا ہے ۔بے شمار عمارتوں کے گنبد، ان کے چھتر، بارہ دریاں،دودھیا تخت اور مرمریں خواب گاہیں۔سنگ ِسرخ کے ساتھ سفید براق پتھر کے ملاپ نے کیسا کیسا پائیدار حسن تخلیق کیا ہے۔ ایک منظر کے کھلتے ہی کتنے چھوٹے بڑے منظر کھلنے لگے۔وہ مناظر بھی جو 2006 ء کے اپنے اس ہندوستان کے سفر میں آنکھوں نے کھینچے تھے اور جس میں اودے پور،اجمیر شریف،جودھ پور اور گلابی شہر جے پور سمیت کئی راجستھانی صحرا اور آبادیاں شامل تھے اور وہ منظر بھی جو تاریخ نے میری آنکھوں تک پہنچائے تھے۔ اودے پور دہلی سے 660 کلو میٹر جنوب مشرق میں راجپوتانے میں واقع ہے۔میواڑ ریاست کے راجپوت مہارانا اودے سنگھ دوم نے 1558 ء میں یہ نیا شہر بسایا اور اسے ریاست میواڑ کا مرکز بنا یا تھا۔اس سے پہلے چتوڑ گڑھ میواڑ کا دارالحکومت تھا۔اودے سنگھ شمالی حملہ آوروں خاص طور پر اکبر اعظم کی مسلسل چتوڑگڑھ پر یلغار سے تنگ تھا ۔ چتوڑ گڑھ کو مدافعت کے ناقابل پا کر اس نے پچولا جھیل کے دائیں طرف پہاڑوں ،جھیلوں اورسنگلاخ راستوں کے درمیان یہ شہر بسایا جس تک مغلوں کی پہنچ مشکل تھی۔اودے سنگھ نے 6 میل لمبی مضبوط شہر پناہ بھی بنائی جس کے سات دروازے سورج پول ،چاند پول ،اودھے پول ،ہاتھی پول ،امبا پول، براہم پول وغیرہ تھے۔مغلوں نے میواڑ پر بار بار حملے کیے اور چتوڑ گڑھ اور اودے پور کے اطراف کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلیے ۔ 1576ء میں میواڑ کے مہارانا پرتاپ سنگھ نے ہلدی گڑھ کی لڑائی میں شکست کھائی اور گوگنڈہ، اودے پور اور کمبل گڑھ مغل قبضے میں آگئے۔ تاہم باجگزاری کی صورت میں ان پر راجپوت قبضہ بحال ہو گیا۔ 1615 ء میں امر سنگھ نے ریاست میواڑ کو مغلوں کا باجگزار تسلیم کرلیا اور اس طرح 150 سال تک مغل حاکمیت قائم رہی۔ (میواڑ کا رانا امر سنگھ مارواڑ کے اس امر سنگھ راٹھور سے الگ شخصیت ہے جس سے قلعہ آگرہ کا ایک دروازہ منسوب ہے ۔اور جس کے بارے میںیہ داستان مشہور ہے کہ امر سنگھ نے شاہجہاں کے عتاب سے بچنے کے لیے انتہائی بلند فصیل اور دربار سے گھوڑے سمیت نیچے دریائے جمنا کی طرف چھلانگ لگا دی تھی) ۔مغلوں کے کمزور پڑتے ہی راجپوتوں نے آزادی کا اعلان کردیا اور میواڑ کے کچھ علاقے بھی حاصل کرلیے۔1818ء میں برطانوی ہندوستان کی شاہی ریاست کے طور پر شامل ہونے تک یہ شہر دارالحکومت چلا آتا تھا۔بعد ازاں صوبہ میواڑ کو بھی راجپوتانہ کا ایک حصہ قرار دے دیا گیا۔جودھ پور، چتور گڑھ، اجمیر ،جے پور، احمد آباد، اندور وغیرہ اگرچہ اچھے خاصے زمینی فاصلے پر ہیں لیکن قریب ترین شہر سمجھے جاتے ہیں۔ ’’اراوالی‘‘ نام کا پہاڑی سلسلہ اودے پور کو گھیرے ہوئے ہے اور یہی سلسلہ اسے تھر کے صحرا سے جدا کرتا ہے۔ایاد اور سیسرما نامی دو دریا اس وادی میں بہتے ہیں جو آگے مل کر دریائے بیداش بناتے ہیں۔اراوالی پہاڑی سلسلے کے دامن اور میدانوں میں سطح سمندر سے 2000 فٹ بلند پانچ بڑی جھیلوں کے درمیان بسایا ہوا یہ شہر قدرتی طور پر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حسین منظر رکھتا ہے۔اودے پور کو جھیلوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔اس لیے کہ فتح ساگر جھیل، پچولا جھیل،سوا روپ ساگر جھیل،رنگ ساگر جھیل اور دودھ طلائی جھیل نامی پانچ بڑی جھیلیں اس شہر کو حسین تر بناتی ہیں۔اور یہ جھیلیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ اودے سنگھ نے اسے آباد کرنے کے لیے بڑی بڑی زمینیںہر ذات اور ہر پیشے کے لوگوں کو فیاضی سے عطا کی تھیں۔جگہ محفوظ تھی ، زمین زرخیز، پانی وافر اور آب و ہوا خوشگوار۔شہر بہت تیزی سے بستا گیا۔راجپوتوں نے اس شہر میں بے شمار محل بنائے ۔امراء اور وزراء نے خوبصورت حویلیاں بنائیں۔یہ سب اب تک سیاحوں کے لیے جنت نگاہ بنے ہوئے ہیں ۔اس حسین شہر میں جھیلوں کے کنارے دنیا کے بعض خوبصورت ترین ہوٹل اور ریزارٹس واقع ہیں جن میں اوبرائے اودیولاس اور تاج لیک پیلس وغیرہ شامل ہیں۔دور دور سے سیاح یہاں یادگار وقت گزارنے کے لیے آتے ہیں اور اس جگہ کے اسیر ہوکر جاتے ہیں۔ 2006 ء کی بات ہے جب مجھے اودے پور میں منعقد ہونے والے مشاعرے کا دعوت نامہ ملا۔یہ ایک بڑا ہندوپاک مشاعرہ تھا اور اودے پور میں پہلا اتنا بڑا مشاعرہ منعقد ہورہا تھا ۔پاکستان سے احمد فراز، امجد اسلام امجد، سعود عثمانی ،عنبرین حسیب عنبر مدعو تھے جبکہ ہندوستان سے شہر یار،، وسیم بریلوی ،منور رعنا، منصور عثمانی، معراج فیض آبادی سمیت بے شمار شاعر شامل ہورہے تھے ۔اتفاق سے یہ نومبر 2006 ء کے دن تھے جب آئی سی سی چیمپینز ٹرافی 2006 ء کا فائنل میچ جے پور ،راجستھان ہندوستان میں منعقد ہونا تھا اور کرکٹ کے بہترین کھلاڑی ، تبصرہ نگار اور کمنٹیٹرز جے پور کا رخ کر رہے تھے۔پروگرام کے مطابق ہمیںلاہور سے بذریعہ طیارہ دہلی پہنچنا تھا۔اسی فلائٹ میں کرکٹ کی کئی کھلاڑی بشمول موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی موجود تھے جوبطور مبصر شریک ہورہے تھے۔عمران خان وجیہہ اور خوبصورت شخص ہیں اورظاہر ہے کہ ظاہری وجاہت کے اعتبار سے آج سے تیرہ سال پہلے ان کی شخصیت مزید پرکشش تھی۔چنانچہ یہ کوئی قابل تعجب بات نہیں تھی کہ لاہور ائیر پورٹ پہنچتے ہی امیگریشن کاؤنٹرز کے عملے سمیت لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے ۔ہر شخص ان کی توجہ اور فائنل پر ان کا تبصرہ چاہتا تھا۔یہیں جناب احمد فرازسے بھی سلام دعا ہوئی اور اب ہم لوگوں کو آگے کئی دن ساتھ ہی سفر کرنا تھا۔دہلی کے ائیر پورٹ پر اترتے ہی ایک بار پھر وہی منظر سامنے آیا۔جس امیگریشن کاؤنٹر پر عمران خان کھڑے تھے، باقی سارا سٹاف اپنا کام چھوڑ کر وہیں اکٹھا ہوگیا تھا۔چنانچہ باقی لوگوں کا کام رک جانا اس کا فطری نیتجہ تھا۔خدا خدا کرکے امیگریشن سے نمٹے اور سامان لینے کی باری آئی ۔ ہماراسامان آچکا تھا جبکہ فراز صاحب ابھی سامان کے انتظار میں تھے ۔میری مدد کی پیشکش انہوں نے مسکرا کر ٹال دی لیکن انہوں نے پوچھا کہ کیا ہمارا اودے پور کا اصل میزبان باہر ہمیں لینے آچکا ہے۔میں نے بتایا کہ اس کے نمائندے آئے ہوئے ہیں ۔ فراز صاحب اس پر ناخوش تھے کہ اصل میزبان اودے پور سے خود کیوں نہیں آیا ۔ ہم سب کا قیام ایک دن کے لیے نظام الدین کے ایک ہی ہوٹل میں تھا۔ اور دو دن بعد اودے پور کی فلائٹ تھی ۔ہم باہر نکلے اور میزبانوں نے ہمارا استقبال کیا ۔ اب ہمیں فراز صاحب کا انتظار تھا۔لیکن کافی دیر کے بعد بھی فراز صاحب کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ میزبان سخت پریشان ہوگئے۔آخر عقدہ کھلا کہ فراز صاحب شاید ناراضگی میں اپنے کسی دوست کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے ہیں اور اب دہلی میں وہیں قیام کریں گے۔ (جاری ہے)